اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل 11 جنوری تک روک دیا

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2023
عدالت نے کیس کی سماعت 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دی—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے کیس کی سماعت 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کا پراسیس مکمل نہ ہونے، فرد جرم اور ان کیمرا سماعت کے خلاف درخواستوں پر سماعت 11 جنوری تک ملتوی کردی، عدالت نے آئندہ سماعت تک سائفر کیس کے ٹرائل کو آگے بڑھنے سے روکتے ہوئے حکم امتناع بھی جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کا پراسس مکمل نہ ہونے، فرد جرم اور ان کیمرا سماعت کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبار دگل عدالت میں پیش ہوئے، ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوشن ٹیم بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئی، عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ مجھے 2 سوالات کے جوابات چاہئیں، اس عدالت نے کہا تھا کہ اوپن ٹرائل ہونا چاہیے تو ان کیمرا سماعت کیوں شروع ہوئی؟ سیکیورٹی عدالتی دائرہ اختیار نہیں، اس میں ہم مداخلت نہیں کریں گے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جیل ٹرائل اگر کرنا ہے تو اِن کیمرا سماعت کیوں ہو رہی ہے؟ چلیں جیل ٹرائل ٹھیک ہے مگر جیل میں بھی اوپن ٹرائل ہونا چاہیے، سائفر کیس میں لوگوں کو جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ نے عدالت کو بتایا کہ فیملی کے افراد اور میڈیا کو بھی جیل میں کمرہ عدالت جانے کی اجازت تھی، مگر ابھی پھر سے درخواست آئی کہ سائفر کیس کی سماعت کو ان کیمرا قرار دیا گیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پورے کیس کو اِن کیمرا نہیں رکھا گیا، کیس میں گواہوں کے بیانات کو قلم بند کرنے تک کا حصہ ان کیمرا تھا، اس کیس میں تقریباً 25 گواہوں کے بیانات قلم بند کرانے تھے، 13 گواہوں کے بیانات قلم بند ہوگئے اور ان میں 2 گواہوں پر جرح ہو چکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 15 دسمبر سے اب تک باقی 10 گواہوں پر ملزمان کے وکلا کی جانب سے جرح نہیں کی گئی، 13 گواہوں کے بیانات قلم بند ہونے کے بعد میڈیا کو سماعت سے آؤٹ کیا گیا۔

سماعت ان کیمرا رکھنی ہو تو ایک طریقہ کار ہوتا ہے، عدالت

عدالت نے استفسار کیا کہ میڈیا کو اجازت نہیں دی تو کیا خاندان کے افراد سماعت میں بیٹھے ہوتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مزید 12 گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد عدالت نے میڈیا کو کمرہ عدالت جانے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ 14 دسمبر کا آرڈر جب پاس ہوا اور کہیں پر چیلنج نہیں کیا گیا تو پھر کیسے میڈیا کو اجازت ملی؟ گواہوں کے بیانات قلم بند کرنا ہوں اور سماعت ان کیمرا رکھنی ہو تو ایک طریقہ کار ہوتا ہے، جب گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے ہوں تو کمرہ عدالت سے لوگوں کو نکال دیں، جب گواہوں کے بیانات قلم بند ہو جائیں تو واپس متعلقہ لوگوں کو کمرہ عدالت آنے کی اجازت دے دیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سائفر کیس میں گواہوں کو 3 کیٹگریز میں تقسیم کر رکھا ہے، سائفر کیس کے 10 گواہان پر ابھی جرح ہونا باقی ہے، کچھ گواہان کے بیانات قلم بند کرنے کے دوران میڈیا کو باہر رکھا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ جو آپ بتا رہے ہیں یہ اوپن ٹرائل تو نہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ اپ اپنی مرضی سے کہیں کہ تم آجاؤ، تم آجاؤ۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ 3 گواہوں کا تعلق وزارت خارجہ سے تھا جنہوں نے سائفر وصول کیا اور ڈی کوڈ کیا، وزارت خارجہ کے تینوں گواہوں کے بیانات اور جرح 15 دسمبر کو ہی ہوئی تھی، ایک اور گواہ جو سائفر کا کسٹوڈین ہے اس کا بیان قلم بند کرنے کے لیے ہم درخواست کریں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سائفر کیس کے 13 گواہوں کا اوپن ٹرائل ہو چکا اور جو 12 مزید رہ جاتے ہیں وہ بھی اوپن ٹرائل ہوگا، آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں، ہم نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اوپن ٹرائل کیا ہوگا۔

جس قانون کا سہارا لیا گیا، تب تو پاکستان تھا ہی نہیں، عدالت

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ اوپن ٹرائل نہ تو جج صاحب پر واضح ہے اور نہ ہی استغاثہ پر، جس قانون کا سہارا لیا گیا، تب تو پاکستان تھا ہی نہیں بلکہ 1935 کا بھارتی قانون بھی نہیں تھا، 1923 میں انسانی حقوق اور بنیادی حقوق دنیا کو معلوم ہی نہیں تھے، ایک عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس پر کیس بنایا گیا، یہ کیس ہمارے سامنے فرسٹ امپریشن ہے، یہ جوڈیشری کے لیے ایگزامن کرنا ہے، جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تب کتنے گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے تھے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے وقت 13 گواہوں کے بیانات قلم بند تھے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے ضمانت کے فیصلے میں کہا کہ شواہد ناکافی ہیں، کل کو اگر اپیل آتی ہے اور میں اس کو سن رہا ہوں تو آپ مجھ سے کیا توقع کر رہے ہوں گے؟ خصوصی عدالت کے جج کے اپنے ہی فیصلے میں سقم موجود ہیں، کبھی کبھی اچھا بھلا کیس ہوتا ہے مگر پھر اس کو خراب کر دیتے ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب ان معاملات میں اپ کو بڑی گہرائی میں جانا ہوگا، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ قانون سے لکھیں، دنیا بھر میں قانون کی ہی منشا ہے۔

سائفر کیس کے اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے پاکستان کریمنل ترمیمی قانون عدالت میں پڑھ کر سنایا اور کہا کہ 1958 کے سیکشن 20 کے قانون کا اس کیس پر اطلاق ہوتا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ عباسی صاحب کمال کی بات ہے، آپ تو اٹارنی جنرل کو ہی پھنسا رہے ہیں، گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں، اٹارنی جنرل کو کم از کم ناراض تو نہ کریں۔

سماعت مکمل نہیں کررہا، سقم موجود ہیں، جسٹس اورنگزیب

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا جس قانون کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس میں صرف سیکشن 20 کا ہی اطلاق ہوتا ہے؟ مجھے یہاں سمجھا دیں، وہ اٹارنی جنرل والی بات میں نے لائٹر نوٹ میں کی تھی، اس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ میں آج سماعت کو مکمل نہیں کر رہا، یہاں آئینی حوالے سے سقم موجود ہیں۔

عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر رضوان عباسی کو آج کے لیے مزید دلائل دینے سے روکتے ہوئے وکیل سلمان اکرم راجا کو دلائل دینے کی ہدایت کی۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا 3 گواہوں کے بیانات کو خفیہ رکھنا مقصود تھا، جن لوگوں کے بیانات کو خفیہ رکھنے کا کہا جا رہا ہے وہ انٹرنیٹ پر موجود ہے، گواہان کے بیانات کے سرٹیفائیڈ عدالتی فیصلے میں سب کچھ لکھا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سرٹیفائڈ کاپی آپ کے پاس ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی سرٹیفائیڈ کاپی میرے سامنے پڑی ہے۔

اٹارنی جنرل نے سلمان اکرم راجا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کو عدالتی فیصلے کو انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنا چاہیے، اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سرٹیفائیڈ کاپی پبلک ڈاکیومنٹ ہوتی ہے، وہ سیکرٹ دستاویز نہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اگر سائفر کی کاپی کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا تو سرٹیفائیڈ کاپی کیسے باہر جاتی ہے؟

عدالت نے سلمان اکرم راجہ کو سرٹیفائڈ کاپی عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی جس پر سلمان اکرم راجہ نے سرٹیفائڈ کاپی عدالت کے سامنے پیش کر دی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہاں کیس ہے، چارج بھی، گواہان بھی اور ملزمان بھی، سپریم کورٹ نے اس کیس میں اپنے فیصلے میں بھی مواد کو ناکافی قرار دیا تھا، میرا مائنڈ آج آپ نے بہت کلیئر کر دیا ہے۔

دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دی، بعدازاں عدالت نے مختصر عبوری حکم سناتے ہوئے سائفر کیس کے ٹرائل میں 11 جنوری تک حکم امتناع بھی جاری کردیا اور آئندہ سماعت تک ٹرائل کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 14 دسمبر کو جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے استغاثہ کی (آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 14 کے تحت دائر کی گئی) درخواست پر سائفر کیس کے اِن کیمرا ٹرائل کی درخواست منظور کرلی تھی اور سماعت کے دوران عام افراد کی موجودگی پر پابندی عائد کردی تھی۔

عدالت نے سماعت کا تحریری حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر کیس کی کوئی کارروائی نشر نہیں ہوگی، صرف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے اہل خانہ کو دوران سماعت کمرہ عدالت میں موجودگی کی مشروط منظوری دی گئی کہ وہ سماعت کی تفصیلات شیئر نہ کریں۔

بعدازاں عمران خان نے اِس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کردی تھی۔

واضح رہے کہ 9 اکتوبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چالان کی نقول فراہم کیں جس کے بعد ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔

اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، عمران خان کے خلاف کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں