نگران حکومت سندھ نے قوم پرست جماعتوں کے تحفظات اور مخالفت کے باوجود فوج کی حمایت یافتہ کمپنی کے ساتھ باضابطہ طور پر معاہدہ کرلیا جس کے تحت اسے 6 اضلاع میں 52 ہزار ایکڑ سے زائد زمین کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے ایک کامیاب پائلٹ منصوبے کے بعد حکومتِ سندھ اور گرین کارپوریٹ انیشیٹو (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے درمیان وزیراعلیٰ ہاؤس میں معاہدے پر دستخط کیے گئے، پاک فوج کی زیرسایہ یہ کمپنی ملک کے تمام صوبوں میں موجود بنجر زمین پر کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کرتی ہے۔

معاہدے کے تحت سندھ میں مقامی انتظامیہ نے تقریباً 52 ہزار 713 ایکڑ بنجر زمین کی نشاندہی کی ہے، اس میں خیرپور میں 28 ہزار ایکڑ، تھرپارکر میں 10 ہزار ایکڑ، دادو میں 9 ہزار 305 ایکڑ، ٹھٹھہ میں ہزار ایکڑ، سجاول میں 3 ہزار 408 ایکڑ اور بدین میں ہزار ایکڑ زمین شامل ہے، یہ تمام زمین ’گرین پاکستان انیشی ایٹو‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آئندہ 20 برس کے لیے مذکورہ کمپنی کے حوالے کی جائے گی، اس کا مقصد ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کا تصور لا کر زرعی طریقوں کو جدید شکل میں ڈھالنا ہے۔

اس میں بتایا گیا کہ بنجر زمین کو سروے، حد بندی اور اِس تصدیق کے بعد 20 سال تک کے لیے مذکورہ فرم کے حوالے کیا جائے گا کہ یہ زمین کسی ممنوع علاقوں میں واقع نہیں ہے، اسے کسی زیر التوا قانونی چارہ جوئی یا عدالتی احکامات کا سامنا نہیں ہے اور کسی بھی بیراج اراضی گرانٹ میں شامل نہیں ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ چیف سیکریٹری سندھ کی سربراہی میں ایک بورڈ آف مینجمنٹ قائم کیا گیا ہے اور یہ لینڈ مینجمنٹ سمیت دیگر امور سے متعلق تمام فیصلے کرے گا۔

اس اہم اقدام کی تفصیلات وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ پریس کانفرنس میں شیئر کی گئیں۔

نگران وزیر ریونیو یونس ڈھاگا، وزیر قانون عمر سومرو، وزیر اطلاعات احمد شاہ اور میجر جنرل شاہد نذیر نے میڈیا کو بتایا کہ یہ منصوبہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات میں سے ایک ہے۔

جولائی 2023 میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے پہلے کارپوریٹ فارم کا آغاز کیا، تاہم اس اقدام کے آغاز کے بعد سے سندھ میں قوم پرست جماعتیں اس کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں اور اس منصوبے کو صوبے پر ’حملہ‘ قرار دے رہی ہیں۔

تاہم نگران حکومت نے اس حوالے سے تازہ تفصیلات میں اِس منصوبے پر پیش رفت کے لیے شرائط و ضوابط کا اشتراک کیا اور متعدد سوالات کے جوابات دیتے ہوئے متعدد غلط فہمیوں کو دور کیا۔

یونس ڈھاگا نے کہا کہ زمین کو ٹائٹل کے طور پر (مذکورہ فرم کو) نہیں دیا جائے گا بلکہ صرف کاشت کے مقاصد کے لیے دیا جائے گا، زمین کی ملکیت حکومت سندھ کے پاس ہوگی، منصوبوں سے مقامی آبادی کے پانی سمیت کوئی حق متاثر نہیں ہوگا، کمپنیوں کو صرف آبپاشی پر انحصار کرنے کی بجائے متبادل طریقوں سے آبی وسائل کا بندوبست کرنا ہوگا۔

وزرا نے مزید وضاحت کی کہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ اس اقدام کے لیے کسی ایسی زمین کو استعمال میں لانے پر غور نہیں کیا جائے گا جو کسی گاؤں، کچی آبادی، محلے، عارضی پناہ گاہوں، چراگاہ، موسمی کاشتکاری، بستی، ممکنہ کان کنی کے علاقے، کسی بھی عوامی منصوبے کے لیے مختص زمین، موٹرویز، سپر ہائی ویز، قومی شاہراہیں، سڑکیں، جیل، ریلوے لائنیں، آبپاشی کے راستے، جنگلی حیات کی پناہ گاہیں، پارکس، پہاڑی سلسلے، ورثے کے مقامات، مذہبی مقامات، قبرستان، جنگلات کی زمین، بنجر زمینیں، گیلی زمینیں، سمندری کریک، دریائی ڈیلٹا، تاریخی آبی گزرگاہیں، اہم حفاظتی تنصیبات، بندرگاہ اور ساحل سمندر کی حدود میں آتی ہو۔

دونوں فریقین کے درمیان معاہدے کی شرائط میں کہا گیا ہے کہ کمپنی خالص منافع (نیٹ پرافٹ) کا 20 فیصد مقامی علاقے میں تحقیق اور ترقی پر خرچ کرے گی جبکہ خالص منافع کا 40 فیصد سالانہ بنیادوں پر حکومتِ سندھ کو ادا کیا جائے گا۔

تاہم شرائط میں کہا گیا ہے کہ بقیہ 40 فیصد حصہ مقامی انفرااسٹرکچر، آبپاشی چینلز، شمسی توانائی سے چلنے والی واٹر سپلائی اسکیموں، اسکولوں، ہسپتالوں، ترقیاتی اسکیموں اور دیگر وسائل پر بھی سندھ کے اُن علاقوں میں خرچ کیا جائے گا جہاں ایسے منصوبے لگائے جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں