سیاسی و معاشی بےیقینی، پاکستانی کاروباری طبقے نے دبئی کا رخ کرلیا

اپ ڈیٹ 11 فروری 2024
کاروباری برادری عام اتنخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد منقسم مینڈیٹ اور جاری سیاسی غیر یقینی سے پریشان ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
کاروباری برادری عام اتنخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد منقسم مینڈیٹ اور جاری سیاسی غیر یقینی سے پریشان ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

گزشتہ 20 ماہ کے دوران پاکستانی تاجر اور امرا نہ صرف دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرنے لگے ہیں بلکہ وہاں ایکسپورٹ امپورٹ ٹریڈ ہاؤسز بھی قائم کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دبئی میں کاروبار کرنے والے کراچی کے سرمایہ کار انور خواجہ نے کہا کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پاکستانی لوگ دبئی کی ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں لیکن پاکستانیوں کی جانب سے وہاں تجارتی اور کاروباری اداروں کا قیام اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے بڑے بزنس ٹائیکونز نے اپنا کاروبار جزوی یا مکمل طور پر دبئی منتقل کرلیا ہے جس سے ملک مناسب آمدنی اور ملازمتوں سے محروم ہوتا جارہا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ لوگوں کے پاس ایسا کرنے کا معقول جواز موجود ہے، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور سیاسی و معاشی بےیقینی نے تاجر برادری کو خوفزدہ کر دیا جنہیں کراچی میں باقاعدگی سے کسی نہ کسی گروپ کو ’بھتہ‘ ادا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نمایاں کاروباری برادریاں مستقل طور پر دبئی میں مقیم ہیں، انہوں نے وہاں گھر خریدے اور بیرونی ممالک کے ساتھ تجارت کی، وہ دوسرے ممالک کو پاکستانی مال کی تجارت کے لیے جگہ بھی فراہم کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دبئی سے تجارت کرنا آسان ہے کیونکہ برآمدات یا درآمدات کے لیے اکاؤنٹ کھولنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ دبئی میں کماتے اور سرمایہ کاری کرتے ہیں، خاص طور پر رئیل اسٹیٹ میں جوکہ پیسہ کمانے کے لیے جنت ہے۔

2022 کے وسط میں جاری ہونے والی ’یورپی یونین ٹیکس آبزرویٹری‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں نے دبئی رئیل اسٹیٹ میں 10 ارب 60 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جس سے وہ دبئی میں تیسرے بڑے سرمایہ کاروں میں شامل ہوگئے ہیں، بھارتی سرمایہ کار دبئی کی رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاری میں 29 ارب 80 کروڑ ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہیں، اس کے بعد برطانوی سرمایہ کار 14 ارب 70 کروڑ ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔

اسی رپورٹ کے مطابق دبئی میں ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں تقریباً 20 ہزار غیرملکی مالکان کا تعلق پاکستان سے ہے، جوکہ تقریباً 35 ہزار بھارتی مالکان اور برطانیہ کے تقریباً 23 ہزار مالکان کے بعد تیسری بڑی تعداد ہے۔

کئی تجزیہ کاروں نے اسلام آباد میں فوری طور پر نئی حکومت کے قیام کو غیر یقینی صورتحال سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ قرار دیا ہے جبکہ دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کو معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

مقامی مالیاتی ڈیٹا پورٹل ٹریس مارک کے چیف ایگزیکٹو افسر فیصل مامسا نے کہا کہ آنے والی حکومت کا پہلا میدان جنگ مہنگائی اور زرمبادلہ کے ذخائر ہونا چاہیے لیکن اصل کام ایک ایسے نظام پر کرنے کی ضرورت ہے جو شرح نمو، پیداواری صلاحیت اور آمدنی میں کمی کو دور کرے، برآمدات، انٹرپرینیورشپ اور انفراسٹرکچر کو بڑھائے اور تعلیم، مہارت، آبادی پر کنٹرول اور عدم مساوات پر مرکوز ہو۔

کاروباری برادری عام اتنخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد منقسم مینڈیٹ اور جاری سیاسی بےیقینی سے پریشان ہے جبکہ کرنسی ٹریڈرز آئندہ 15 روز میں روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ دیکھ رہے ہیں۔

انتخابات کے بعد اب مارکیٹ روپے کی مزید دوطرفہ اور کثیر جہتی بہاؤ کی توقع کر رہی ہے، اگرچہ آئی ایم ایف کے اگلے جائزے میں کچھ پیچیدگیاں آسکتی ہیں لیکن امید یہی کی جارہی ہے کہ بالآخر قرض کی اگلی قسط کا کامیابی سے اجرا ہوجائے گا۔

فیصل مامسا نے کہا کہ ڈالر 276 روپے سے اوپر جانے کی صورت میں ملکی برآمدات کو نقصان پہنچنا شروع ہوجائے گا، مارکیٹ رواں ماہ ڈالر 278 سے 282 کے درمیان رہنے کا امکان ظاہر کررہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں