ڈرائنگ روم میں بیٹھ کرعہدے بانٹنےتھے تو الیکشن کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ

21 فروری 2024
سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 5 مارچ تک ملتوی کر دی—فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز
سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 5 مارچ تک ملتوی کر دی—فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز

انٹرنیٹ بندش کیس میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ عقیل احمد عباسی نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر عہدے بانٹنے تھے تو الیکشن کرانے کی کیا ضرورت تھی ؟

8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران انٹرنیٹ سروس کیے جانے سے متعلق درخواست پر سندھ ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ جس طرح آپ لوگوں نے الیکشن کرائے ہیں، پوری دنیا تعریف کررہی ہے، انٹرنیشنل میڈیا بھی دنیا کو بتا رہا ہے پاکستان میں کس طرح کے الیکشن ہوئے ہیں، انٹرنیٹ یہاں بھی نہیں چل رہا، وہاں بھی نہیں چل رہا، کہیں بھی نہیں چل رہا۔

انہوں نے کہا کہ لگتا ہے جس طرح کے الیکشن کرائے ہیں، بندر بانٹ کرکے قبر پر پھول نہیں چڑھا دیتے، انٹرنیٹ بحال نہیں ہوگا، ایسا مت کریں لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں، لوگوں کو سب پتا کون کیا کرا رہا ہے۔

’ آپ طاقتور ہیں، انٹرنیٹ بند کرکے دنیا میں اپنا کیوں تماشہ بنا رہے ہیں’

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ جس طرح پریشر ککر کی ہلکی سٹی بجتی ہے، اسے بجنے دیں، ایسا نہ ہو جیسے سٹی بند کرنے پر پریشر ککر کی طرح سب پھٹ جاتا ہے اس طرح دھماکا ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کون ہوگا، وزیر اعظم کون ہوگا، گورنر شپ کس دی جائے گی، اگر اس طرح کرنا تھا تو الیکشن کیوں کرائے ہیں ؟ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر عہدے بانٹنے تھے تو الیکشن کرانے کی کیا ضرورت تھی ؟

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ لوگ طاقتور ہیں جیسی پلاننگ کرتے ویسا کر لیتے ہیں، انٹرنیٹ بند کرکے دنیا میں اپنا کیوں تماشہ بنا رہے ہیں ؟ ایسا لگتا ہے عدالتیں، سارے ادارے بے وقعت ہوچکے ہیں، کون ملک چلا رہا ہے ؟

وکیل پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) نے کہا کہ ابھی تو انٹرنیٹ چل رہا ہے ، وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کی گئی ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے ملک میں امن وامان کا مسئلہ نہیں ہوا ہے، سب سے اہم مسئلہ نیشنل سیکیورٹی کا تھا، نیشنل سیکورٹی کی وجہ سے انٹر نیٹ سروس بند کی گئی تھی۔

’جو لوگ سب کچھ کررہے ہیں ان کو کوئی کچھ نہیں بولتا، سب عدالتوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں‘

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ لااینڈ آرڈر کی خراب صورتحال کے پیش نظر مخصوص علاقوں میں سروس بند کی جاتی ہے، پورا ملک بند کرکے مذاق بنا رکھا ہے، وفاقی حکومت تو صوبائی حکومت پر ملبہ ڈال رہی ہے۔

میراں شاہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہمیں ایک درخواست میں فریق بنایا گیا ہے اس میں جواب جمع کرادیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہی تو مسئلہ ہے عدالتوں کو بھی سنجیدہ نہیں لیتا، ڈی سی اسلام آباد کو عدالت نے توہین عدالت کا نوٹس دیا تو بولتا ہے میں عمرے پر جارہا تھا وہاں جارہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ سب کچھ کررہے ہیں ان کو کوئی نہیں بولتا سب عدالتوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

عدالت عالیہ نے حکومت سے الیکشن کے دن انٹرنیٹ بند کرنے کی وجوہات طلب کر لیں۔

عدالت نے ایک مرتبہ پھر انٹر نیٹ سروس اور سوشل میڈیا بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا اور سماعت 5 مارچ تک ملتوی کر دی۔

تبصرے (0) بند ہیں