پیٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی قیمتوں، درآمدی پریمیم اور شرح مبادلہ میں معمولی ردوبدل کی وجہ سے پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں آج جمعرات (29 فروری) کو ایک روپے سے 4 روپے فی لیٹر تک اضافے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ 15 فروری کو نگران حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 2 روپے 73 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کیا تھا جس کے بعد پیٹرول کی نئی فی لیٹر قیمت 275 روپے 73 پیسے مقرر کر دی گئی، اسی طرح ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں بھی 8 روپے 37 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا تھا جس کے بعد ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 287 روپے 33 پیسے ہو گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں گزشتہ 15 روز کے دوران عالمی منڈی میں (10 سے 50 سینٹ فی بیرل) بڑھیں اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو پیٹرول پر زیادہ درآمدی پریمیم ادا کرنا پڑا۔

نتیجتاً حتمی شرح مبادلہ کے حساب سے پیٹرول کی قیمت 3 سے 4 روپے فی لیٹر بڑھنے جبکہ ڈیزل کی قیمت ایک روپے سے ڈیڑھ روپے تک بڑھنے کا امکان ہے، 28 فروری کو روپے کے مقابلے میں ڈالر تقریباً 15 پیسے سستا ہوا، مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمتیں مستحکم رہنے کا امکان ہے۔

حکام نے بتایا کہ گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران پیٹرول کی قیمت تقریباً 0.5 ڈالر فی بیرل بڑھ کر 90.78 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے جوکہ 89.20 ڈالر فی بیرل تھی جبکہ ڈیزل کی قیمت تقریباً 8 سینٹ فی بیرل کم ہو کر 101.13 ڈالر سے 101.05 ڈالر پر آگئی۔

دوسری جانب روپیہ بالعموم مستحکم رہا، پی ایس او کی طرف سے پروڈکٹ کارگوز کو محفوظ بنانے کے لیے ادا کیا جانے والا پریمیم پیٹرول کے لیے بڑھ کر 10.45 ڈالر فی بیرل ہو گیا جوکہ فی بیرل 9.47 ڈالر تھا، تاہم ڈیزل کے لیے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی جوکہ 6.5 ڈالر فی بیرل رہا۔

حکومت پہلے ہی پیٹرول اور ڈیزل دونوں پر پہلے ہی 60 روپے فی لیٹر ڈیولپمنٹ لیوی وصول کر رہی ہے، یہ قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ حد ہے، عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ کیے گئے وعدے کے تحت رواں مالی سال میں حکومت کا پیٹرولیم لیوی کی مد میں 869 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے، لیکن یہ پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران 475 ارب روپے حاصل کر چکی ہے۔

حکومت کو رواں مالی سال کے اختتام تک اس مد میں 970 ارب روپے وصول کرنے کی توقع ہے، حالانکہ نظر ثانی شدہ ہدف بڑھ کا 920 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

پیٹرول کا زیادہ تر استعمال نجی ٹرانسپورٹ، چھوٹی گاڑیوں، رکشوں اور موٹرسائیکلوں میں ہوتا ہے، جس سے کم اور متوسط آمدنی والوں کے بجٹ پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔

اس کے برعکس ڈیزل کی قیمت کا مہنگائی پر زیادہ اثر ہوتا ہے، کیونکہ اس کا استعمال ہیوی ٹرانسپورٹ، ٹرینوں، زرعی انجنوں، جیسا کہ ٹرک، بسوں، ٹریکٹرز، ٹیوب ویلز اور تھریشرز میں ہوتا ہے، اور یہ خاص طور پر سبزیوں اور دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

حکومت پیٹرول اور ڈیزل دونوں پر تقریباً 82 روپے فی لیٹر ٹیکسز وصول کر رہی ہے، اگرچہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات سے کوئی سیلز ٹیکس نہیں لے رہی تاہم اس نے دونوں مصنوعات پر 60 روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی عائد کر رکھی ہے، حکومت پیٹرول اور ڈیزل پر تقریباً 17 سے 20 روپے فی لیٹر کسٹم ڈیوٹی بھی لے رہی ہے۔

پیٹرول اور ڈیزل ریونیو حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ ہے، جس کی ماہانہ فروخت تقریباً 7 سے 8 لاکھ ٹن ہے، جبکہ مٹی کے تیل کی ماہانہ کھپت صرف 10 ہزار ٹن ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں