سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2024
28 فروری کو درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جسے آج جاری کیا گیا—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
28 فروری کو درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جسے آج جاری کیا گیا—فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔

آج چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جو یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

ممبر الیکشن کمیشن کا فیصلے پر اختلافی نوٹ

سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے پر ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بابر حسن بھروانہ کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ میں اختلاف کرنے والے ممبر پنجاب بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ معزز ممبران کے ساتھ اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ یہ سیٹیں سنی اتحاد کونسل کو الاٹ نہیں کی جاسکتیں، یہ مخصوص نشستیں آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 میں ترمیم تک خالی رکھنی چاہئیں۔

انہوں نے لکھا کہ میں حتمی فیصلے سے جزوی اتفاق کرتا ہوں، ترجیحی فہرست وقت پر جمع کرانا قانونی ضرورت تھی جو نہیں کرائی گئی۔

اختلافی فیصلے میں کہا گیا کہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر باقی جماعتوں کو نشستوں کی تقسیم پر اختلاف ہے، آئین واضح ہے کہ سیاسی جماعتوں کو جنرل نشستوں کی بنیاد پر مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں، مخصوص نشستیں آئین کے آرٹیکل اکاؤن اور 106 میں ترمیم تک یہ نشستیں خالی تصور کی جائیں گی۔

سنی اتحاد کونسل کو قومی اسمبلی میں20خواتین اور 3 اقلیتی نشستوں الاٹ ہونی تھیں۔

28 فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے سنی اتحاد کونسل کا کمیشن کو لکھا خط پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کو دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں چاہییں تو آپ کیوں ان کو مجبور کر رہے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے سنی اتحاد کونسل کا خط بیرسٹر علی ظفر کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ سربراہ سنی اتحاد کونسل نے 26 فروری کو الیکشن کمیشن کو خط لکھا جس میں سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اس نے جنرل الیکشن لڑے، نہ اسے مخصوص نشستیں چاہییں۔

بیرسٹر علی ظفر نے سنی اتحاد کونسل کے خط سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل نے ایسے کسی خط کے حوالے سے نہیں بتایا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 28 فروری کو درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے آج جاری کیا گیا ہے۔

اس سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی رکن اور وکیل حامد خان، پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر علی، پی ٹی آئی وومن ونگ کی صدر کنول شوزب، مسلم لیگ (ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ ، پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) کے وکیل فروغ نسیم، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن(جے یو آئی ف) کے کامران مرتضیٰ، سنی اتحادکونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا الیکشن کمیشن میں موجود تھے۔

سنی اتحاد کونسل میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین اسمبلی نے اپنے انتخابی نشان کے بغیر انتخابات جیتنے کے بعد شمولیت اختیار کی تھی، بعدازاں سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا جس میں بلوچستان کے سوا قومی اور 3 صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں مختص کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

تاہم الیکشن کمیشن نے اس درخواست پر اس وقت تک غور نہیں کیا جب تک سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنے کے خلاف درخواستوں کا ڈھیر نہ لگ گیا جس میں یہ کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی نہیں ہے اور اس نے مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔

سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے خلاف درخواستوں کی 2 روز سماعت کے بعد ان درخواستوں کو سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کے ساتھ منسلک کردیا گیا تھا اور کچھ دیگر پارلیمانی جماعتوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔

78 مخصوص نشستیں

الیکشن کمیشن نے اب تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے کل 226 مخصوص نشستوں میں سے 78 کی الاٹمنٹ کو روک رکھا ہے، طے شدہ فارمولے کے تحت یہ تمام نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی تھیں۔

قومی اسمبلی میں خواتین کی کل 60 مخصوص نشستوں میں سے الیکشن کمیشن نے اب تک 40 نشستیں مختلف سیاسی جماعتوں کو مختص کی ہیں، ان میں پنجاب کی کل 32 نشستوں میں سے 20، خیبرپختونخوا کی 10 میں سے 2، سندھ کی تمام 14 اور بلوچستان کی چاروں نشستیں شامل ہیں، اسی طرح الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے مخصوص 10 نشستوں میں سے اب تک 7 نشستیں مختص کی ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں خواتین کے لیے کل 66 مخصوص نشستوں میں سے 42 نشستیں اور 8 میں سے 5 اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی جاچکی ہیں۔

سندھ اسمبلی میں الیکشن کمیشن نے خواتین کے لیے مخصوص 29 نشستوں میں سے 27 اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 9 میں سے 8 نشستیں مختص کی ہیں۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں الیکشن کمیشن نے خواتین کے لیے کل 26 مخصوص نشستوں میں سے 5 اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 4 میں سے ایک مخصوص نشستیں مختص کی ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں خواتین کے لیے تمام 11 اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 3 نشستیں پہلے ہی مختص کی جا چکی ہیں۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں