لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

نو منتخب وزیراعظم نے اقلیتی حکومت جوکہ مختلف جماعتوں کو ساتھ ملا کر بنائی گئی ہے، کے لیے جرات مندانہ اہداف طے کرلیے ہیں۔ انہوں نے خطرات کے پیش نظر ملکی حالات کو بہتر کرنے کا عزم کیا ہے۔ بطور وزیراعظم شہباز شریف کا پہلا عہد ختم ہونے کے چند ماہ بعد ہی وہ دوسری بار برسرِاقتدار آئے ہیں۔

تاہم اس بار کمزور حکومتی اتحاد کو درپیش مسائل اور چیلنجز پہلے کی نسبت زیادہ تشویش ناک ہیں۔ ان کے پہلے دورِ حکومت میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا اور ان کی نئی حکومت کو بھی متوقع طور پر پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

8 فروری کے عام انتخابات کی قانونی ساکھ پر اٹھنے والے سوالات، نئی حکومت کے لیے اچھا آغاز نہیں ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کے فلور پر جو ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی، وہ ملک میں بگڑتے ہوئی سیاسی تقسیم کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی تقسیم کی وجہ سے سیاسی استحکام حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے جو اس وقت ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

موجودہ ماحول میں شہباز شریف کی سیاسی مفاہمت کی کال کا کسی نے مثبت جواب نہیں دیا کیونکہ خواتین سمیت سیکڑوں سیاسی قیدی اب بھی بغیر کسی مقدمے کے جیل میں قید ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگادیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی ہے جس نے موجودہ سیاسی ماحول میں مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔

اگرچہ وزیراعظم نے ابھی اپنی کابینہ کا اعلان نہیں کیا لیکن اس کی تشکیل کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ وزارتوں پر اتحادیوں کے ساتھ اب بھی کچھ مسائل ہیں جو حل طلب ہیں جبکہ شہباز شریف کے لیے تمام چھے اتحادی جماعتوں کو بیک وقت خوش رکھنا مشکل ہوگا۔ اس کے علاوہ متوقع طور پر اس مشکل وقت میں پرانے چہروں کی اقتدار میں واپسی سے زیادہ امید نہیں کہ حکومت ڈیلیور کرپائے گی۔ بلاشبہ اصل فیصلہ بڑے بھائی نواز شریف کے اختیار میں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کی اپنی ترجیحات ہیں۔

تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت کون چلائے گا؟ اگرچہ ’معاشی گرو‘ کے طور پر اسحٰق ڈار کی واپسی کے امکانات کم ہیں لیکن انہیں مکمل طور پر اس دوڑ سے باہر تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بطور وزیرِخزانہ ان کی واپسی ملک کے معاشی مستقبل کے لیے بری خبر ہوگی۔ تاہم وزارتِ خزانہ کی کرسی کے لیے ان کے علاوہ دیگر ناموں پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

البتہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت سخت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ایسے فیصلے کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ ساختی اصلاحات پر کام شروع کیا جاسکے۔ نئی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج طویل عرصے سے زیرِ التوا ریاستی اداروں کی نجکاری کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ یہ ادارے معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اس حوالے سے سخت تحفظات ہیں مگر اس معاملے پر دیگر اتحادی جماعتوں کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔

نجکاری کا معاملہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور اکثریت سے محروم کمزور حکومت جس کی بقا مکمل طور پر اتحادی جماعتوں پر منحصر ہے، ایسی حکومت کے لیے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت دیگر ریاستی اداروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ واضح رہے کہ ان اداروں سے سرکاری خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

تاہم اقتصادی پہلو کے حوالے سے ایک اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ نئی حکومت قرضوں کی بدترین صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وزیراعظم شہباز شریف نے افسوس کا اظہار کیا کہ پوری وفاقی حکومت کے اخراجات قرضے کی رقم سے پورے کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کو فنڈز کی منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔ یہ یقیناً ملک کی مالی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔

شہباز شریف نے قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نمٹنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے تمام صوبوں کے اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں اتفاقِ رائے ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے بالخصوص خیبرپختونخوا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ موجودہ انتظامات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہوگی جو موجودہ محاذ آرائی کے ماحول میں ہونے کا امید نہیں۔

شہباز حکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈ کے لیے بات چیت کرنا ہوگا جوکہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان نے گزشتہ موسم گرما میں آئی ایم ایف کے قلیل مدتی بیل آؤٹ کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹال دیا تھا لیکن آئی ایم ایف کا یہ پروگرام جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔ چند ہفتوں میں ایک نئے پیکیج کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ بات چیت شروع ہونے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف نے پہلے ہی اپنی شرائط پیش کردی ہیں اور حکومت کو کسی بھی نئے معاہدے سے پہلے ان شرائط پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

ان میں سے کچھ شرائط تو ایسی ہیں جن سے پہلے سے عدم استحکام کا شکار حکومت مزید غیر مقبول اور اس پر شدید سیاسی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ شہباز شریف کی پچھلی حکومت جس میں اسحٰق ڈار وزیرخزانہ تھے، اس حکومت کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ البتہ آخری لمحات میں دیے گئے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی بدولت ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ خود آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شامل ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان کی جانب سے سخت فیصلہ سازی کی ضرورت ہے نہ کہ مذاکرات میں ان کی براہِ راست شرکت کی۔ ایسے میں اسحٰق ڈار کی واپسی کا کوئی بھی امکان تباہ کُن ثابت ہوسکتا ہے۔

ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ اقتدار میں موجود جماعتوں پر بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں جوڑ توڑ کے الزامات سے کسی بھی مفاہمت کی کوشش کا کامیاب ہونا ناممکن لگتا ہے۔ اس بگاڑ کو دور کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔

لیکن صرف معیشت نہیں بلکہ داخلی سلامتی سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے عسکریت پسندوں کو دہشت گردی تیز کرنے کا بھرپور موقع دیا ہے اور وہ سیکیورٹی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی زیرِقیادت خیبرپختونخوا حکومت اور وفاق کے درمیان کوئی بھی محاذ آرائی ملک کی داخلی سلامتی کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوگی۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں، ایسے میں بہت کم امید ہے کہ ان کے درمیان معاملات ٹھیک ہوں گے۔ ایسی حکومت جس کے مینڈیٹ پر شکوک و شبہات ہوں، ملک میں وہ استحکام نہیں لا سکتی جس سے حالات میں بہتری آسکے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں