پشاور ہائی کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے معاملے پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 51 ڈی پر بحث کریں تاکہ واضح ہو جائے، کیا سنی اتحاد کونسل ایک پارٹی ہے یا نہیں؟ کیا صدارتی، سینیٹ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے؟

خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر درخواستیں پر سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے کی، جس میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی شامل ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کی جانب سے قاضی انور، اعظم سواتی، پیپلز پارٹی کے نیر بخاری، فیصل کریم کنڈی اور فاروق ایچ نائیک عدالت میں موجود ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آزاد امیدواروں نے قانون کے مطابق 3 روز میں سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا، جس پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار کامیاب ہوا تھا؟

جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے تو خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔

قاضی انور نے عدالت کو بتایا کہ بالکل ان کا کوئی امیدوار بھی کامیاب نہیں ہوا، عدالت نے سوال پوچھا کہ 21 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی درخواست دی گئی؟ جس پر قاضی انور نے جواب دیا کہ جی انتخابات میں کامیابی کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی گئی۔

قاضی انور کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو نشان نہ ملنے کے باعث تمام امیدواروں نے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا، بطور آزاد امیدوار زیادہ تر نے الیکشن جیت لیا۔

انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کا کوئی ممبر الیکشن جیت چکا ہے؟ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی تو بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لایا، مزید پوچھا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ کب جمع کروائی گئی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر مخصوص نشستوں کو خالی چھوڑ دیا جائے توپارلیمان میں اقلیت اور خواتین کی نمائندگی نہیں رہے گی۔

دلائل تیار کرنے کیلئے وقت دیا جائے، وکیل سنی اتحاد کونسل

قاضی انور ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ درخواست علی ظفر نے دائر کی ہے، اس لیے مجھے وقت دیا جائے کہ دلائل تیار کرلوں، مجھے کہا گیا تھا کہ ہم آرہے ہے، آج نہیں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ درخواست دی گئی سماعت ملتوی کرنے کی اور نہ ہی کوئی اور خبر، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آج ایک ہی لارجر بنچ تشکیل دیا گیا ہے، یہ تو عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔

قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ درخواست کرتے ہیں کہ کیس کل سنا جائے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا کہ کل کیس کو سنیں، ہم وقت ضائع نہیں کرسکتے۔

وکیل پی ٹی آئی قاضی انور نے مؤقف اپنایا کہ مجھے 2 وکلا نے کہا ہم تیار ہیں، میری تیاری نہیں ہے مجھے تیاری کے لیے وقت دیں، جس پر عدالت نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ لارجر بینچ روزانہ بیٹھے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ان کی کوئی درخواست نہیں، وہ سینئر وکلا ہیں، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، مزید کہا کہ ہمارے پاس ججز کم ہیں، روزانہ ہم پانچ سے چھ گھنٹے کیسز سنتے ہیں، عدالت نے غریب درخواست گزاروں کا کیس سننا ہے۔

پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ کل سینیٹ کا الیکشن ہونا ہے، عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو اپنے حصہ سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کا حق نہیں بنتا۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار پارٹی نے جنرل الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جس پر عدالت نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ فراہمی کا طریقہ کار الیکشن ایکٹ میں موجود نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں مکس ممبران کی نمائندگی کا قانون ہے، اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع کرانا پڑتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ لسٹ کا طریقہ کار قانون میں واضح نہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت تصور کیا جارہا ہے؟

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے متعدد سیکشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے یا نہیں یہ دیکھنا ہے، قانون کے مطابق جس سیاسی پارٹی نے جنرل الیکشن میں حصہ لیا یا کوئی سیٹ جیت جائے تو مخصوص نشستیں ان کو ملیں گی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل کے مطابق سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جنرل سیٹیں جیتنے کے تناسب پر سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 51 ڈی پر بحث کریں تاکہ واضح ہو جائے، کیا سنی اتحاد کونسل ایک پارٹی ہے یا نہیں؟ کیا صدارتی، سینیٹ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے؟

عدالت نے مزید سوال اٹھایا کہ کیا سنی اتحاد کونسل اپوزیشن لیڈر بناسکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون ہے کہ سیاسی جماعت کو کم از کم جنرل الیکشن میں سیٹ جیتنا لازمی ہے۔

’یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے‘

عدالت نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کا ایسا کیس بھی سامنے نہیں آیا ہے، یہ کیس اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ مخصوص نشستیں اس جماعت کو ملے. گی جس کا پارلیمنٹ میں نمائندگی ہو۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک اور قانون بھی ہے کہ آزاد امیدواروں کو 3 دن کے اندر کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی، پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ رکھنے والے پارٹی میں اگر کوئی آزاد امیدوار چلا جائے تو کیا ہوگا؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے ایکٹ 2017 کو پاس کرتے وقت پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں کا معاملہ زیر غور نہیں لایا گیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ لسٹ جمع کرانا کسی سیاسی جماعت کے لیے لازمی ہوتا ہے، لسٹ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے لیکن الیکشن سے قبل لسٹ جمع کرنا لازمی ہوتی ہے، مزید کہا کہ مخصوص نشستوں کو پھر شائع کیا جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ووٹر مخصوص نشستوں کی لسٹ کو دیکھتے ہوئے کسی امیدوار یا جماعت کو ووٹ دیتا ہے، جس پر عدالت نے سوال پوچھا کہ اگر کوئی جماعت مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہ کریں؟ اگر وہ جماعت پاکستان کی بڑی جماعت ہو تو الیکشن ایکٹ کیا کہتا ہے اس معاملے پر؟

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ہر سیاسی جماعت الیکشن سے قبل لسٹ جمع کراتی ہے کیونکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ یہ مخصوص نشستیں بھی حاصل کریں گے، کسی جماعت کو لسٹ کے مطابق مخصوص نشستیں ملیں گی۔

مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی آزاد حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو مخصوص نشستوں کے حصول سے انہیں نکالا جائے گا، جس پر جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ اب تو یہ صورتحال ہے کہ آزاد امیدواروں نے پارٹی کو جوائن کیا ہے۔

مخصوص نشستوں کی لسٹ پہلے جمع کرانی ہوتی ہے، اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جنرل سیٹوں کے علاوہ مخصوص نشستوں کا سوچ بھی نہیں سکتے، مزید کہا کہ رولز کے مطابق سیٹ جیتنے والی پارٹی کو مخصوص نشستوں کی لسٹ پہلے جمع کرانی ہوتی ہے۔

عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر ایک جماعت 12 اور دوسری 18 جنرل نشستیں جیت جائے، آزاد امیدوار 12 جنرل نشستیں جیتنے والی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلے تو پھر کیا ہوگا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس صورت میں تو وہ پارٹی آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد بڑی پارٹی بن جائے گی، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پھر بھی امیدواروں کی لسٹ جمع کرانے کی شرط پوری تو نہیں ہوگی۔

عدالت نے کہا کہ کیا آپ مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں، اگر آزاد امیدوار کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلے تو کیا اس کو مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں؟

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دی جاسکتی ہیں لیکن اگر پارلیمان میں اس پارٹی کی کوئی نمائندگی ہو، اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل نے دلال مکمل کر لیے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کے دلائل کو سپورٹ کرتا ہوں، سنی اتحاد کونسل سیکشن 51 ڈی کے مطابق ایک سیاسی جماعت نہیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں، مخصوص نشستوں کے امیدوار پورے صوبے کی نمائندگی کرتے ہیں، مخصوص نشستوں کے لیے 3 مختلف سیکشنز کا پورا کرنا لازمی ہوتا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ اگر کوئی جماعت اس میں ایک بھی پورا نہ کریں تو وہ سیاسی جماعت تصور نہیں ہوگی، قانون کے مطابق مخصوص نشستیں اس جماعت کو ملے گی جو الیکشن میں حصہ لے گی۔

انہوں نے مزید دلائل دیے کہ اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والی جماعت کو ہی مخصوص نشستیں ملیں گی، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے سوال اٹھایا کہ اگر سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا تو اس کا کیا مطلب ہوا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پہلا یہ ضروری ہے کہ سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہونی چاہیے، دوسرا یہ کہ سیاسی جماعت کے لیے الیکشن میں حصہ لینا لازمی ہے، سیاسی جماعت جس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہوں ان کو مخصوص نشستیں ملیں گی۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 51 (ڈی) اور سیکشن 104 کہتا ہے کہ ایک جنرل نشست ہوگی تو ان کو ملے گی، کاغذات نامزدگی کے آخری دن سے پہلے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی دینا ہوتی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کی کوئی جنرل نشست نہیں ہے اور نہ مخصوص لسٹ پہلے جمع کروائی ہے۔

قانون میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، وکیل الیکشن کمیشن

وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ قانون میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے لیکن ابھی کے لیے جو تشریح ہے اس سے یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا، مزید کہا کہ تشریح یہی ہے کہ کم از کم ایک سیٹ جیتنا لازمی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اب یہ فیصلہ بنچ نے کرنا ہے کہ تشریح درست ہے یا نہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلدئل دیے کہ سیاسی جماعت کے لیے لازمی ہے کہ اپنے نشان کے تحت انتخابات میں حصہ لے، سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

مزید کہنا تھا کہ پھر مخصوص نشستوں کے لیے فہرست بھی آخری تاریخ سے قبل دینا ضروری ہے۔

جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ آپ جو باتیں کررہے ہیں، پارلیمینٹیرینز نے اس مسئلے کو نہیں دیکھا، مزید ریمارکس دیے کہ فی الحال تو قانون میں اس مسئلے کو حل نظر نہیں آرہا۔

جسٹس ارشد علی کا کہنا تھا کہ کیوں نا اس کو پارلیمنٹ بھیجا جائے تاکہ مسئلہ کا حل نکل سکے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ درخواست میں اٹھائے گئے سوالات کے جوابات دے رہا ہوں، آخری تاریخ کے بعد سے متعلق تو سپریم کورٹ کے واضح فیصلے موجود ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں کی فہرست کا فارم 66 ہوتا ہے لیکن انہوں نے فارم 66 دیا ہی نہیں، جسٹس عتیق نے مکالمہ کیا کہ امید کرتے ہیں یہ فارم 45 اور 47 کی طرح نہیں ہوگا، اس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے بھی دلائل مکمل کر لیے۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل سے یہی لگا ہے کہ آپ اس کو سیاسی جماعت مانتے ہیں لیکن یہ پارلیمانی پارٹی نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بالکل ایسا ہی ہے، مخصوص نشستیں پارلیمانی پارٹی کو مل سکتی ہیں۔

جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ کیا یہ سیٹیں خالی رکھی جاسکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جاسکتیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ مخصوص نشستوں کا کوٹی خالی نہ رہے اس لیے دیگر جماعتوں میں تقسیم کی گئیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کا حق ہی نہیں بن رہا تھا۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستیں درخواست گزار کی تھی ہی نہیں، اس لیے دوسری جماعتوں میں تقسیم کی گئیں۔

پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل کا آغاز کردیا

جسٹس اعجاز انور نے سوال پوچھا کہ آپ یہ بتادیں کہ صوبے میں آپ نے کتنی نشتیں جیتیں اور مخصوص نشستیں کتنی ملیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ مجھے ابھی نمبرز یاد نہیں، میں اس مسئلے میں اپنے دلائل دوں گا۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے مکالمہ کیا کہ قاضی صاحب کیا آپ دلائل دیں گے؟ جس پر قاضی انور نے کہا کہ میں دلائل نہیں دینا چاہتا، صرف یہ دیکھ لیں کہ کیا قانون کے مطابق مخصوص نشستیں دی گئی ہیں کہ نہیں۔

قاضی انور کا کہنا تھا کہ اگر کل تک ملتوی کردیں تو میں دلائل دے سکتا ہوں۔

نو تعینات ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل نے بھی سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کردی۔

عدالت نے سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے خلاف دائر درخواست پر منتخب ارکان کو حلف اٹھانے سے روکنے کے حکم میں 13 مارچ تک توسیع کردی ہے۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے خواتین کے لیے 20 مخصوص نشستیں اور تین اقلیتی نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے سے انکار کردیا تھا، پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ قومی اسمبلی کی تمام بقیہ مخصوص نشستوں اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستوں پر لاگو ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں