وزیر اعظم آج چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کریں گے

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2024
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاقات میں چیف جسٹس کے علاوہ سینئر جج منصور علی شاہ بھی شریک ہوں گے—فائل فوٹو:ڈان نیوز
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاقات میں چیف جسٹس کے علاوہ سینئر جج منصور علی شاہ بھی شریک ہوں گے—فائل فوٹو:ڈان نیوز

وزیر اعظم شہبازشریف آج چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کریں گے۔

’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات سپریم کورٹ میں ہوگی۔

ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہوں گے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آج ہونے والی ملاقات کی تصدیق کر دی ہے۔

وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات آج دوپہر دو بجے سپریم کورٹ میں ہوگی۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاقات میں چیف جسٹس کے علاوہ سینئر جج منصور علی شاہ بھی شریک ہوں گے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججوں کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا، خط کے معاملے پر غور کے لیے گزشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا۔

فل کورٹ اجلاس 2 گھنٹے تک جاری رہا تھا جب کہ وقت کی کمی کے باعث فل کورٹ اجلاس میں ججز کے خط کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا تھا، اجلاس کے دوران تمام ججز نے خط پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

اس سلسلے میں اجلاس آج بھی فل کورٹ اجلاس جاری رہے گا۔

واضح رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججوں کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط سامنے آیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

خط میں لکھا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کی اوپن کورٹ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر ہوگئی۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جس میں سپریم کورٹ سے با اختیار کمیشن تشکیل دے کر انکوائری کروانے استدعا کی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں