جنوری میں قومی خزانے سے صوبائی منصوبوں کی فنانسنگ کو ختم کرنے کے بعد، وفاقی حکومت صوبائی منصوبوں کے انضمام کے ذریعے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے مشترکہ طور پر قومی ’اسٹریٹجک نوعیت کے منصوبوں‘ کی فنانسنگ پر زور دے رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگلے سال کے بجٹ سے پہلے قومی اقتصادی کونسل کے آئندہ اجلاس کے لیے جاری ورکنگ پیپر میں کہا گیا ہے کہ صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، شہری خدمات، زراعت، صنعتوں وغیرہ جیسے شعبوں میں وفاقی اور صوبائی منصوبوں کا نفاذ عموماً اکیلے ہوتا ہے، صوبوں اور وفاقی حکومت کے درمیان اور خود صوبوں کے درمیان کوئی کراس لرننگ نہیں ہے اور اگر اسے قومی اقتصادی ترقی کے ہدف کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کو کم کرتی ہے۔

یہ پیپر نوٹ کرتا ہے کہ یکساں نوعیت اور اقسام کے منصوبوں کو مختلف فنڈنگ ​​کے ذرائع اور رقم کے ساتھ بعض اوقات مختلف طریقوں سے لاگو کیا جاتا ہے، اس میں دلیل دی گئی ہے کہ اس طرح کے منصوبوں کے انضمام سے صوبوں کو بڑے پیمانے پر عوامی سرمایہ کاری کے اخراجات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے، اس سے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر نظرثانی کی ضرورت ختم ہو سکتی ہے جسے ہر کچھ عرصے بعد بعض حلقوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے۔

نیشنل ڈویلپمنٹ فریم ورک (این ڈی ایف) کا مسودہ جسے قومی اقتصادی کونسل کے ذریعے تقریباً دو ماہ میں ایک اور محاذ پر اٹھایا جائے گا، مرکز اور صوبوں کی مشترکہ ذمہ داری کے طور پر قومی تزویراتی منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے راہ ہموار کرتا ہے، یہ قومی اقتصادی کونسل کے جنوری کے فیصلے سے آگے ایک اور قدم ہے جس میں صوبائی منصوبوں کی وفاقی فنانسنگ روکنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

پیپر کے مطابق یہ بہترین وقت ہے کہ قومی اقتصادی ترقی کے لیے صرف قومی سطح کے اسٹریٹجک نوعیت کے منصوبوں کو اپنایا جائے، اس طرح کے منصوبوں کی شناخت وفاقی، صوبائی اور علاقائی حکومتوں کے ترقیاتی طریقوں کے بارے میں اچھی معلومات رکھنے والے تکنیکی ماہرین کے ذریعہ کی جانی چاہیے، اس میں مزید کہا گیا کہ ایک بار شناخت کے بعد، اسٹریٹجک منصوبوں میں تمام حکومتوں کی طرف سے یکساں تعاون کیا جانا چاہیے اور ان کے نفاذ کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں۔

نیشنل ڈویلپمنٹ فریم ورک تقریبا ڈیڑھ دہائی قبل 18ویں آئینی ترمیم اور 7ویں این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے متعارف کرائی گئی نچلے سطح تک منتقلی کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس پر عمل درآمد کی وکالت کرتا ہے جو آئین کے آرٹیکل 29 سے 38 میں درج عام طور پر تمام طبقات کو مساوی مواقع فراہم کرنے پر محیط ہے، اور آرٹیکل 156 ،قومی اقتصادی کونسل، نیشنل ڈویلپمنٹ فریم ورک کے ذریعے مالی، تجارتی، سماجی، اور اقتصادی پالیسیوں کے سلسلے میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مناسب آلہ اور ادارہ ہے۔

وفاقی سطح پر، وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام اور صوبائی سالانہ ترقیاتی منصوبے پر مشتمل ایک قومی ترقیاتی تخمینہ تیار کیا جا سکتا ہے جو اہم شعبہ جاتی حکمت عملیوں اور ترجیحات کے ساتھ ساتھ فلیگ شپ منصوبوں کو بھی اجاگر کرتا ہو، اس میں مشورہ دیا گیا کہ صوبوں کو 10 ارب روپے سے زائد کے میگا پراجیکٹس کی کامیابی کی کہانیاں پیش کرنی چاہئیں، جن کی منظوری قومی اقتصادی کونسل (ایکنک) کی ایگزیکٹو کمیٹی نے دی ہو لیکن صوبائی وسائل کے ذریعے اسے مالی اعانت فراہم کی گئی۔

اس پیپر میں کہا گیا کہ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اچھے طریقوں کا اشتراک کیا جا سکتا ہے، صوبائی ترقیاتی ترجیحات اور قومی اسٹریٹجک ترجیحات کے درمیان ہم آہنگی صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب قومی اسٹریٹجک ترجیحات کو انتہائی مخصوص اور قابل پیمائش طرز میں بیان کیا جائے۔

اسے منصوبہ بندی کمیشن میں انفرااسٹرکچر جیسے بعض شعبوں کو ترقی کرنے والے قرار دے کر اسٹریٹجک ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے کیا جائے گا اور صرف ان شعبوں میں سرمایہ کاری پر توجہ دی جائے گی جبکہ ساتھ ہی ساتھ صوبوں کو ان کی صوبائی ترقیاتی ترجیحات کا تعین کرنے کے لیے خود مختاری بھی فراہم کی جائے گی۔

اس کے بعد صوبے بین الاقوامی عطیہ دہندگان اور صوبائی وسائل کے ذریعے اپنی ترقیاتی ترجیحات کی حمایت کے لیے مالی مدد حاصل کر سکتے ہیں، اس طرح صوبائی ترقیاتی ترجیحات اور قومی حکمت عملی کی ترجیحات کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہوگا، یہ منصوبہ بندی اور ترقی کے وزرا اور پلاننگ بورڈز کے سربراہان کی سطح پر فوری طور پر ترقیاتی فورمز کی بحالی کے ذریعے کیا جائے گا تاکہ ترقیاتی اقدامات میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے اور نقل سے بچنے اور سرمایہ کاری کو زیادہ مؤثر بنانے میں بہت مدد ملے۔

اس کے ساتھ ہی ورکنگ پیپر میں پاکستان کے لیے سیاست کے جمہوری عمل کے ذریعے مختلف اداروں اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنےکی غرض سے آگے بڑھنے کی پہلی اور اولین ترجیح کا مطالبہ کیا گیا ہے کیونکہ علاقائی تفاوت 1947 کے بعد سے سب سے بڑی خامی ہے اور یہ حال ہی میں پاکستان کے 20 کم ترقی یافتہ اضلاع سے بھی واضح ہوتی ہے۔

لہٰذا 18ویں آئینی ترمیم کی بنیادی روح اور اس کی تشریح میں فیڈریشن کے یونٹس کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا مجموعی قومی اقتصادی کارکردگی پر گہرا اثر پڑتا تھا، یہ اختلافات ممکنہ طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی دائرہ اختیار کو بھی اجاگر کر سکتے ہیں تاکہ دراڑ اور اختلافات کو حل کرنے میں مدد مل سکے۔

یہ متوازن ترقی اور علاقائی مساوات کے تصور کے ذریعے کیا جا سکتا ہے جو متوازن ترقی کو یقینی بنانے کے لیے نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ صوبوں کو بھی متعلقہ ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے متوازن ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار ہونے کی ضمانت دیتا ہے۔

اس طرح، 18ویں ترمیم اور 7ویں این ایف سی ایوارڈ کی روح وفاقی یونٹس کو زیادہ مالی خودمختاری کے ساتھ مضبوط کرنا ہے اور ساتھ ہی ان کو منصفانہ بنیادی سماجی شعبوں میں مزید وسائل لگا کر مساوی ترقی کے لیے ذمہ دار ٹھہرانا ہے تاکہ 2030 تک آرٹیکل 32 کے تحت مقامی حکومتوں کے فروغ سے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں