190 ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت ملتوی

عمران خان —فائل فوٹو: پی ٹی آئی انسٹاگرام
عمران خان —فائل فوٹو: پی ٹی آئی انسٹاگرام

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ نیب ریفرنس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت 13 مئی تک ملتوی کردی۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ، قومی احتساب بیورو (نیب) پراسیکیوٹر امجد پرویز اور تفتیشی افسر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز نے عدالت سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کر دی، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ لاہور کے افسوسناک واقعے کی وجہ سے وکلا ہڑتال پر ہیں، میں لاہور سے آیا ہوں یہ ہائی پروفائل کیس ہے میڈیا پر چلنا ہے، یہ میرے لیے شرمندگی کا باعث ہو گا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ لاہور میں کل جو ہوا وہ بہت افسوسناک ہے لیکن ہم بطور عدالت مظاہروں کی توثیق نہیں کر سکتے۔

بعد ازاں عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔

امجد پرویز نے کہا کہ آپ بانی پی ٹی آئی کے وکیل کی مرضی کی کوئی آئندہ کی تاریخ رکھ لیں، آپ روزانہ کی بنیاد پر کیس سن لیں لیکن میری استدعا ہے کہ آج نہ سنیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ہم وکلا برادری کو سمجھتے ہیں لیکن کام تو چلتے رہنا ہے، ہڑتال کی وجہ سے کیس کی سماعت تو ملتوی نہیں کر سکتے۔

پراسیکیوٹر امجد پرویز نے اپنے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کا دفتر وزیراعظم سیکریٹریٹ میں بنایا گیا، ایسٹ ریکوری یونٹ براہ راست وزیراعظم کو رپورٹ کرتا تھا، ایسٹ ریکوری یونٹ کی طرف سے نیشنل کرائم ایجنسی کو ملک ریاض کے منی لانڈرنگ کیسز سے متعلق خط لکھا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کی تشکیل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں دیکھا جا چکا ہے، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملک ریاض نے برطانیہ میں ون ہائیڈ پارک پراپرٹی حسن نواز سے خریدی۔

اس پر عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا حسن نواز کا یہ بھی بتا دیں کہ وہ کس کے بیٹے ہیں،نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز نے جواب دیا کہ وہ سب کو معلوم ہے، حسن نواز سے متعلق برطانیہ میں اس پراپرٹی سے متعلق کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

امجد پرویز کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر ملک ریاض کی رقم این سی اے سے غیر منجمند کرانے کے لیے ایک خفیہ ڈیڈ پر دستخط کرتے ہیں، وفاقی کابینہ سے بند لفافے میں خفیہ ڈیڈ کی منظوری لی گئی، خفیہ ڈیڈ وفاقی کابینہ کی طرف سے شہزاد اکبر نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ کی، این سی اے نے ملک ریاض اور ان کی فیملی کی رقم منجمند کی۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ این سی اے نے وہ رقم کیوں منجمند کی؟ نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز نے جواب دیا کہ این سی اے نے رقم مشکوک ہونے کی وجہ منجمند کی تھی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ملک ریاض اور فیملی کی رقم پاکستان میں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئی، نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز نے بتایا کہ یہ ایک غیرقانونی عمل ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جہاں کچھ غیرقانونی ہو وہ آپ بتائیے گا پہلے میں سمجھ تو لوں۔

بعد ازاں عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت 13 مئی تک ملتوی کر دی، پیر کو بھی نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز دلائل جاری رکھیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر سردار لطیف کھوسہ نے بتایا تھا کہ این سی اے نے برطانیہ میں رقم منجمد کی جو معاہدے کے ذریعے پاکستان منتقل کی گئی، 190 ملین پاؤنڈز کی منجمد کردہ رقم معاہدے کے تحت سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی۔

29 اپریل کو نیب پراسیکیوٹر کی عدالت میں پیش نا ہونے پر عدالت نے کہا تھا کہ ان کو آخری وارننگ دی جاتی ہے، اگر وہ مستقبل میں عدالت میں پیش نا ہوئے تو ہم کوئی فیصلہ کرلیں گے۔

واضح رہے کہ 23 جنوری کو سابق وزیر اعظم نے 190 ملین کیس میں ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

پس منظر

واضح رہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔

یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔

عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں