امریکا کی جانب سے ہتھیاروں کی ترسیل روکنے کی دھمکی پر اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر ضرورت پڑی تو ہم تنہا کھڑے ہوں گے، کم وسائل میں بھی لڑیں گے۔‘

ایک روز قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ کہ اگر اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ کے شہر رفح پر بڑا حملہ کیا تو وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دیں گے۔

تاہم برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے نیتن یاہو نے امریکی وارننگ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ہر صورت لڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر ہمیں تنہا کھڑا ہونا پڑا تو ہم تنہا کھڑے ہوں گے اور آخری حد تک لڑیں گے، ضرورت پڑی تو ہم اپنے کم وسائل میں بھی لڑیں گے۔‘

اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ 76 سال قبل کی جنگ آزادی میں ہم مخالفین کے مقابلے بہت کم تھے، اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی کی وجہ سے ہماری تعداد بہت کم تھی، ہمارے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی لیکن مضبوط جذبے، بہادری اور اتحاد کے ساتھ، ہم کامیاب ہوئے۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع ہاؤ گیلنٹ نے امریکا کی جانب سے وارننگ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے دشمنوں اور اتحادیوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیل کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم مضبوط کھڑے رہیں گے، ہم اپنے مقاصد حاصل کریں گے، ہم حماس کو نشانہ بنائیں گے، ہم حزب اللہ کو نشانہ بنائیں گے اور ہم سیکیورٹی بحال کریں گے۔‘

یاد رہے کہ رفح میں اسرائیل کے زمینی حملے کے خدشے کے پیش نظر امریکا نے اسرائیل کو بارودی مواد کی کھیپ کی ترسیل روک دی تھی۔

امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا تھا کہ کھیپ میں 900 کلو گرام سے زائد بارودی مواد اور 226 کلو گرام سے زائد بارودی مواد شامل تھے۔

رفح میں سنگین صورتحال

یاد رہے کہ اسرائیل نے بین الاقوامی خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے رفح پر بڑے زمینی آپریشن کا اعلان کیا تھا۔

7 مئی کو اسرائیلی فوج نے غزہ اور مصر کے درمیان فلسطینی سائیڈ پر رفع کراسنگ پر قبضہ (آپریشنل کنٹرول سنبھال لیا) کر لیا تھا۔

تاہم نیتن یاہو نے ابھی تک فوجیوں کو رفح شہر میں داخل ہونے کا حکم نہیں دیا۔

اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ رفع کراسنگ کی بندش کا مطلب ہے غزہ کے لیے دو اہم امدادی راستے بند ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں میں اب تک 34 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے جبکہ غزہ کی تقریباً پوری آبادی کو نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے۔

غزہ کے جنوبی حصے میں واقع رفح ایک چھوٹا شہر ہے جہاں 15 لاکھ بے گھر فلسطینیوں کو پناہ حاصل ہے۔

رفع تقریباً 37 ایکڑ پر پھیلا ہے، اور اس وقت وہاں صورت حال اتنی سنگین ہے کہ جہاں 15 لاکھ افراد کو ایک چھوٹی سے علاقے میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

اسرائیلی افواج نے اپنے تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس کو رمضان تک کی مہلت دی تھی ورنہ وہ رفح میں داخل ہوجائیں گے۔ غزہ کے جنوبی شہر پر زمینی حملے کا خطرہ، جبری انخلا اور موت کا خوف 15 لاکھ سے زائد بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔

غزہ جنگ بندی مذاکرات

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ قاہرہ میں ہونے والی بات چیت کا مقصد 6 ہفتے کی جنگ بندی کو یقینی بنانا ہے تاکہ کچھ ہرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں شہریوں کے لیے امداد میں اضافے کا سلسلہ جاری رہ سکے۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز اور مذاکرات میں شامل دیگر وفود جمعرات کو بغیر کسی معاہدے کے مصر سے روانہ ہو گئے ہیں۔

اسرائیل کا اصرار ہے کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ غزہ میں حماس کو تباہ کرنے کا اپنا مقصد حاصل نہیں کر لیتا۔

اس سے قبل 6 مئی کو حماس نے مصر اور قطر کی ثالثی میں کیے جانے والے جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط پر اتفاق کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یاد رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 34 ہزار 904 فلسطین شہید اور 78 ہزار 514 زخمی ہو چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں