فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

اسلام آباد: شدید مالی بحران اور خام مال کی عدم دستیابی کی بناء پر ملک کے سب سے بڑے صنعتی ادارے، پاکستان اسٹیل ملز کا پروڈکشن سائیکل بظاھر مکمل طور پر رک گیا ہے-

پاکستان اسٹیل کے ایک عہدیدار کے مطابق، کوک اوون بائی پروڈکٹ پلانٹ (سی او بی پی) کے دو مرکزی یونٹوں اور بلاسٹ فرنس کو خام مال کی شدید کمی کا سامنا ہے اور ان کی دوسری بیٹری کو کوئلے کی قلت کی وجہ سے ہیٹ سائیکل منتقل کر دیا گیا ہے-

انہوں نے بتایا کہ بلاسٹ فرنس کو چارج کرنے کے لیے درکار کوک کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسٹیل میکنگ کے لیے ضروری ہاٹ میٹل کی پیداوار میں کمی واقع ہو گی، جس کی وجہ سے رولنگ ملز میں تیار کی جانے والے ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس کی پیداوار متاثر ہو گی- ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں بیٹریوں اور ان کی پیداواری صلاحیت کو مزید نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے-

ان کا کہنا تھا سی او بی پی بیٹری پہلے ہی پیدوار کے بغیر نومبر سے ہیٹنگ پر ہے جس کی وجہ سے ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات بڑھ گئے ہیں-

رواں ماہ کے پہلے نصف حصے کے دوران، سی او بی پی کی پیداوار، صرف پانچ ہزار ٹن ہو کر رہ گئی ہے جبکہ اس کی پیداواری صلاحیت اسی ہزار ٹن ماہانہ ہے- مروجہ طریقہ کار کے تحت کوئلے کے ذخائر تیس ہزار ٹن ریڈی اسٹاک میں ہونے چاہئیں، لیکن اس وقت یہ صرف آٹھ سو ٹن ہیں-

اس کے نتیجے میں بلاسٹ فرنس کی پیداوار صرف چھ ہزار ٹن رہ گئی ہے جبکہ اس ماہانہ پیداواری صلاحیت ایک لاکھ ٹن ہے- دوسری جانب خام اسٹیل کی پیداوار صرف ساڑھے چار ہزار ٹن ہے جبکہ ادارے کی ماہانہ صلاحیت اکیانوے ہزار ٹن ہے-

ہاٹ اسٹرپ مل میں پیداوار کا عمل رک چکا ہے- بلٹ مل پچھلے چار برسوں سے بند ہے جبکہ بلٹ کاسٹر پچھلے ساڑھے تین برسوں سے خراب پڑا ہوا ہے-

کولڈ رولنگ مل میں اس وقت صرف بارہ سو ٹن پیداوار ہو رہی ہے جبکہ اس کی ماہانہ پیداواری صلاحیت سترہ ہزار ٹن کی ہے- پچھلے پندرہ دنوں میں ہونے والی سیل کی مالیت صرف 440 ملین روپے بنتی ہے-

اہلکار کا کہنا تھا کہ آج کی تاریخ میں نہ تو ہمارے پاس فروخت کے لیے پیش کرنے کو اسٹاک موجود ہے اور نہ ہی ہمارے پاس انوینٹری میں خام مال موجود ہے- عملی طور پر پاکستان اسٹیل ملز بند ہو چکی گو کہ مل کو گرم رکھنے کے لیے بیٹریاں ابھی بھی آن ہیں ورنہ تکنیکی اعتبار سے مل کو دوبارہ شروع کرنا ممکن نہیں رہے گا-

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنے ابتدائی سو دنوں کے دوران نہ تو پیشہ ور انتظامیہ کو مل میں تعینات کیا اور نہ ہی ایک شفّاف طریقہ کار کے تحت بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تبدیلی کی گئی تا کہ ملکی لوہے کی ضروریات پوری کرنے والے اس ادارے کو مشکلات سے نکالا جا سکے-

حکام ایک عرصے سے اس بات کے اندیشے کا اظہار کرتے آ رہے ہیں کہ ملک میں اسٹیل کی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھنے والی اسٹیل مل بند ہو سکتی ہے تاہم نئی حکومت کی جانب سے کسی نے اس پر توجہ نہیں دی، جس کے دور اقتدار کی ابتدا سے لے کر اب تک سات ارب روپوں کا اضافی نقصان ہو چکا ہے-

پچھلے پانچ سالوں کے دوران مجموعی طور پر پاکستان اسٹیل ملز کو مجموعی طور پر دو سو ارب روپے کا خسارہ ہو چکا ہے-

اس حوالے سے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں بائیس اگست کو پیش کی جانے والی سمری میں اسٹیل ملز کو بند کرنے، اس کی نجکاری کرنے یا کمپنی کو یکسر تبدیل کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں۔

وزارت صنعت کا مؤقف ہے کہ اسٹیل ملز کو نجکاری سے پہلے اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور بہتر قیمت دلانے کے لیے 28.5 ارب روپوں کی ضرورت ہے، ورنہ یہ "ستمبر کے آخر تک بند" ہو جائے گی اور پھر بھی واجبات کی ادائیگی کے لیے 56.55 ارب روپوں کی ضرورت ہو گی۔

سال 2009ء میں 40.5 ارب روپے کا بھاری بیل آوٹ پیکیج حاصل کرنے کے باوجود، کمپنی کا اس سال تیس جون تک، مجموعی خسارہ 86.3 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ اس کے واجبات کی رقم 98.6 ارب روپے ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اس کی ایکویٹی منفی ہو گئی ہے۔ اس وقت اسٹیل ملز اپنی گیارہ فیصد کی صلاحیت کے بل بوتے پر چل رہی ہے اور دستیاب ورکنگ کیپٹل سے ستمبر کے بعد آپریشن جاری نہیں رکھا جا سکتا۔

تبصرے (0) بند ہیں