اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
حیات کے منظرناموں کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی ہر آنکھ کی اپنی نظر اور محسوس کرنے کا اپنا الگ دل و دماغ ہوتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے اس پوری دنیا میں بسنے والے اربوں انسانوں میں سے آپ کے انگوٹھے کی لکیریں کسی اور شخص کی جیسی نہیں ہیں، فطرت کا کمال دیکھیں کی آپ کی شکل صورت جیسا اس پوری دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔
مگر کمال یہ بھی ہے کہ ہم سب الگ الگ ہیں مگر ساتھ رہتے ہیں اور کچھ حقائق پر ہماری سوچ ایک دھارے میں بہتی ہے۔
’جوکھیو اور کلمتی بلوچ یہ دونوں قبائل کسی ایک مقام یا گاؤں میں نہیں رہ سکتے اور نہ ہی دونوں قبائل کا تعلق ایک ہی دور اور علاقے سے ہوسکتا ہے۔ بلوچ قبیلہ مکران کے ساحل پر کلمت سے نقل مکانی کرکے آیا تھا جبکہ جوکھیو برادری مقامی ہونے کی دعویدار ہے جوکہ نواب شاہ سے نقل مکانی کرکے شاہ بلاول کے قریب ’کنگورے‘ میں بسی۔ اس نے بعدازاں حب اور ملیر ندیوں کی وادیوں میں سکونت اختیار کی‘۔ یہ بات ہمیں اس حوالے سے تحقیق کرنے والے محترم کلیم اللہ لاشاری صاحب بتاتے ہیں۔
میرے سامنے سماٹ (اصل سندھی قبائل) کے جوکھیوں کے متعلق دو اور حوالے موجود ہیں۔ ایک ’وکی پیڈیا‘ سے ہے جس میں تحریر ہے کہ ’جوکھیو ایک سندھی سماٹ قبیلہ ہے جو سندھ میں رہتا ہے۔ اسے ایک طاقتور قبیلہ سمجھا جاتا ہے اور برطانوی راج میں ان کو سیاسی اہمیت حاصل تھی اور انہیں جاگیریں بھی دی گئیں، ان کا قبرستان چوکنڈی کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو صدیوں پرانا ہے اور پتھروں پر نقش و نگار کے لیے مشہور ہے‘۔
اسی حوالے سے ’انسائیکلوپیڈیا سندھیانا‘ ہمیں جو معلومات فراہم کرتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ ’سندھ کے جوکھیہ سماٹ جدگالی جت ہیں۔ 1854ء میں کلرک کی رپورٹ کے مطابق، جوکھیو قبائل اصل میں راجپوت نسل سے ہیں جو ابتدا میں شاہ بلال کے شمال میں کانگڑا پہاڑ کے باسی تھے۔ یہ تقریباً 300 برس قبل نقل مکانی کرکے ملیر آگئے۔ کلہوڑا دور حکومت میں ’رانو ارجن‘ دھاراجا کو بجار خان جوکھیو نے قتل کروایا اور اس قتل کے بدلے کلہوڑوں نے انہیں ’جام‘ کا لقب دیا۔
’اس کے بعد جو اس قبیلے کا بڑا بنتا اسے بھی یہی لقب دیا جاتا ہے۔ جام مراد علی خان جوکھیو ملیر کراچی میں رہتا تھا۔ اس کے بیٹے کا نام جام بجار خان ہے۔ اس قبیلے کے لوگ کراچی، ٹھٹہ اور سجاول ضلع کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں میں بھی رہتے ہیں‘۔
اب کچھ ذکر کرتے ہیں بُرفت قبیلے کا۔ یہ قبیلہ بھی سندھ کے سماٹ قبائل میں سے ایک ہے۔ ’انسائیکلوپیڈیا سندھیانا‘ کے مطابق، ’بُرفتوں نے سمہ، ارغون، کلہوڑا اور تالپوروں کے دور حکومت میں سیاسی طور پر اہم کردار ادا کیا۔ جب ارغونوں نے سمہ سرداروں کی حکومت پر قبضہ کیا تب برفتوں نے ارغونوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑی۔ ملک پہاڑ خان کو بُرفت اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہیں جو اس زمانے میں لسبیلہ کا حاکم تھا۔
’اس نے لسبیلہ کے بعد دادو کے علاقے کاچھو پر حکومت کرنے کا سوچا جہاں ان دنوں یار محمد کلہوڑو کی حکومت تھی۔ پہاڑ خان نے سیوہن کے کچھ علاقوں پر قبضہ بھی کیا مگر یار محمد کلہوڑو نے حملہ کرکے ان پر غلبہ حاصل کیا۔ سیاسی کھیل کھیلتے ہوئے اس نے جیتے ہوئے علاقے واپس کیے اور یار محمد نے پہاڑ خان سے دوستی کرلی اور دیگر قبائل کو مغلوب کرنے کے لیے استعمال کیا۔
’میاں نور محمد کلہوڑو کے دنوں میں پہاڑ خان کا شمار قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا۔ میاں نور محمد نے پہاڑ خان کو لسبیلہ اور کاچھو میں بڑی جاگیریں دیں۔ ملک پہاڑ خان نے 1471ء میں وفات پائی تو اس کی بیوی مائی چاگلی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ عزت خان جو ملک پہاڑ خان اور مائی چاگلی کا بیٹا تھا، اسے غلام شاہ کلہوڑو نے اپنی فوج میں اہم عہدہ دیا اور اس نے بہت سی جنگوں میں حصہ لیا‘۔
ہمیں یہاں پر بسنے والے کلمتی قبیلے کا ذکر بھی ملتا ہے جس کے متعلق تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ وہ کلمت سے آئے تھے۔ بنیادی طور پر یہ ہوت ہیں، مکران میں کلمت کے مقام پر ان کی ریاست تھی تو یہ کلمتی کہلائے۔ ان کی سندھ آمد اندازے کے مطابق دسویں صدی عیسوی میں ہوئی البتہ پندرہویں صدی میں بڑی نقل مکانی ہوئی۔
لاشاری صاحب، محمد سلیم اختر کی کتاب سے حوالہ دے کر تحریر کرتے ہیں کہ دوران سفر یہ ’لس‘ کے علاقے میں بس گئے۔ بعدازاں مغل دور حکومت میں کلمتیوں نے ملیر میں اپنی بستیاں بسائیں اور اسی کو اپنا مرکز بنایا۔ ملیر کا قریبی علاقہ جنوب میں ساکرو اور ٹھٹہ تھا تو وہ وہاں پھیل گئے۔
ساتھ ہی ہمیں لاشاری قبیلے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ تاریخ کے صفحات کے مطابق، لاشاری چونکہ دادو کے علاقے میں رہتے تھے تو انہیں وہاں جاگیریں ملیں اور ساتھ ہی انہیں سونڈا، پیر پٹھو، ملیر اور حب کے قرب و جوار میں بھی جاگیریں عطا کی گئیں۔ سندھ میں ارغونوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد لاشاری معتوب ہوئے اور ان کے اکثر معتبرین سمیت ان کی قوت کا بڑا حصہ سونڈا کی جنگ میں ہلاک ہوا اس وجہ سے ان کی اکثریت کَچھ اور گجرات منتقل ہوئی۔
سندھ میں سومرا قبیلے کے بعد سمہ خاندان کی حکومت کی ابتدا ہوئی۔ 1351ء میں جام اُنڑ سموں نامی وہ پہلا حاکم تھا جس نے سمہ دور کی بنیاد رکھی تھی۔ اس دوران سترہ کے قریب حاکموں نے 1519ء تک تقریباً 170 برس تک حکمرانی کی۔ جام نظام الدین سمہ (1416ء سے 1508ء) نے اپنی حکومت میں قرب و جوار کی ریاستوں سے اچھے تعلقات رکھے۔
محقق غلام محمد لاکھو لکھتے ہیں کہ ’سلطان جام نظام الدین انتہائی بخت والی گھڑی میں سندھ کے تخت پر بیٹھا۔ جنگ و جدل کا موسم جیسے گزر چکا تھا۔ چاروں اطراف معتبر سیاسی حکومتیں چل رہی تھیں اور انہیں اندرونی استحکام حاصل تھا۔ انہیں نہ کسی بغاوت کی جانب سے کچلنے کی پریشانی تھی اور نہ ہی ہمسائے پر حملہ کرکے قبضہ جمانا تھا۔ تاریخ نے یہ خوش بخت یکسوئی بڑی محنت اور مشکل سے پیدا کی ہوگی۔ اس وقت گجرات میں محمود بیگڑہ، کشمیر میں سلطان زین العابدین اور مارواڑ جودھپور میں راجا جودھ آزادی، اطمینان اور وقار کے ساتھ حکومت کر رہے تھے‘۔
کلیم اللہ لاشاری کے مطابق، یہ وہی زمانہ (1451ء) ہے جب بلوچ قبائل نے بڑی تعداد میں مکران سے سندھ اور پنجاب کی جانب نقل مکانی کی۔
نامور سپہ سالار دریا خان، جام نندو کو 1475ء میں ایک چرواہے کے روپ میں ملا تھا۔ 15 برس کے بعد جب ہم سندھ کے سرحدی شہر سبی کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ نوجوان دریا خان ایک بہادر جنگجو کے روپ میں نظر آتا ہے۔ جام نندو کے زمانہ میں ہرات سے سلطان حسین بایقرا کا حکم چلتا تھا۔ سلطان حسین کی فوج نے سندھ کے سرحدی شہر سبی پر حملہ کیا جہاں امیر بہادر جو جام نندو کا نائب مقرر تھا، وہ قتل ہوا۔ منگولوں کے حملے میں سندھی فوج نے شکست کھائی اور سبی پر ہراتیوں نے قبضہ کیا۔
یہ واقعہ 1487ء میں ہوا اور یہاں محمد ارغون (شاہ بیگ ارغون کا بھائی) عمل دار کے طور پر مقرر ہوا۔ اس فتح کی وجہ سے ارغونوں کا رویہ بڑا کڑوا اور کرخت رہا۔ آخر ٹھٹہ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دریا خان کی سپہ سالاری میں سبی لشکر بھیجا جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ 1490ء میں ارغونوں اور دریا خان کی افواج کے درمیان جنگ ہوئی جس میں سلطان محمد ارغون مارا گیا۔
’تاریخ معصومی‘ کے مصنف میر معصوم بکھری اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ ’دریا خان نے اپنی ذہانت اور تدبر سے ملتان سے کیچ مکران اور کَچھ تک کا علاقہ سندھ کی حکومت میں شامل کرلیا۔ یہ سندھ کے لیے ایک اچھا زمانہ تھا‘۔
18 برس بعد یعنی 1508ء میں جام نظام عرف جام نندو نے اس فانی جہاں سے آنکھیں موندیں تو اسے ایک حوالے سے سمہ دور کا اختتام ہی سمجھنا چاہیے کہ اس کے بعد جو ہوا وہ کچھ اس طرح سے ہوا کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
اگر سمہ دور میں جام نندو میں شامل فوج کا جائزہ لیا جائے تو بقول لاشاری صاحب کہ ابتدائی طور پر جام نندو کی افواج میں بلوچ قبائلی ہی اہم عہدوں پر فائز تھے۔ مجھے نہیں پتا کہ لاشاری صاحب کی بات کس حد تک درست ہوسکتی ہے کیونکہ ان دنوں خاص طور پر جنوبی سندھ کے سمندری کناروں پر سمیجا، مندھرا اور دوسری سماٹ قومیں رہتی تھیں جن کے اپنے انتہائی طاقتور راجواڑے تھے۔ اس لیے سبی پر حملوں میں تاریخ کے صفحات پر ہمیں یہ جملہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ ’منگولوں کے حملے میں سندھی فوج نے شکست کھائی‘۔
میں ان قبائل کے حوالے سے کچھ واقعات سنا دیتا ہوں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ ان دنوں کے حالات کیسے تھے۔
1619ء میں مغل صوبہ دار سید بایزید بخاری بکھر سے ٹھٹہ میں تعینات ہوا۔ تاریخ مظہر شاہ جہانی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ میں یہاں فقط حالات کو جاننے کے لیے ایک واقعہ آپ کو سناتا ہوں۔
سید بایزید کے بیٹوں نے ٹھٹہ سے شمال میں شوروں اور دل قبیلے پر سختیاں کیں اور ان کو اپنے حدود تک محدود کردیا۔ جیسے وہ خاموش ہوئے تو برفتوں نے ادھم مچایا۔ ننگر ٹھٹہ کے شمال مغرب میں ساکرہ پرگنو میں جوکھیہ اور کلمتی بلوچ رہتے تھے۔ ان کی پیادوں اور سواروں کی تعداد تین ہزار تک تھی۔ یہ ٹھٹہ سرکار کو اونٹ اور دنبے محصول کے طور پر دیتے تھے۔
سید بایزید کی عمل داری میں جوکھیوں سے کوئی غلطی ہوگئی۔ یہ معاملہ بایزید کے منہ بولے بیٹے شاہ محمد اور جوکھیوں کے بیچ تھا۔ مسئلہ حل نہیں ہوا اور بات جنگ تک جا پہنچی اور جوکھیوں نے شاہ محمد اور اس کے 50 لوگوں کو قتل کردیا۔ ساتھ میں ان کے ہتھیار تلواریں، نیزے اور گھوڑے ساتھ لے کر پہاڑیوں میں چلے گئے۔ آخر بایزید نے معاملے کو سنبھالا اور جوکھیوں کے معززین کو بلا کر صلح کرلی۔
یوسف میرک لکھتے ہیں کہ ’جوکھیہ اور کلمتی بلوچ سیہون کی سرکار والے قبائل سے بھڑتے رہتے ہیں۔ ان کی نومڑیوں (برفتوں) کے ساتھ دشمنی چلی آ رہی ہے۔ اور چھوٹی چھوٹی مڈبھیڑیں اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ مگر لوگ زیادہ ہونے کی وجہ سے برفت ان سے زیادہ طاقتور ہیں‘۔
میرک نے اپنی یہ کتاب 1635ء میں تحریر کی تھی۔ یعنی آج سے تقریباً چار صدیوں پہلے۔ ان دنوں کے جو معروضی حالات تھے، لوگوں کی جو نفسیات تھی، ان کی دشمنیوں اور دوستیوں کا جو معیار تھا یا لڑنے کے جو اسباب تھے ان کے متعلق آج ہم اور آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
’رتوکوٹ ایک زمانے میں ’بڑچھ‘ قبیلے کی ریاست تھی۔ مرزا صالح (1640) جو مرزا عیسیٰ خان کے بیٹے اور ٹھٹہ کے نواب تھے تب ’بڑچھوں‘ اور بلوچوں کی آپس میں جنگ ہوئی۔ روایت ہے کہ جس رات کلمتی بلوچوں نے یہاں اچانک حملہ کیا اس رات قلعے میں 120 جوڑوں کی شادیوں کی تقریب تھی۔ کہتے ہیں کہ اس رات یہاں بہت خون بہا یہاں تک کے پالنے میں سوئے ہوئے معصوم بچوں کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ قلعے کو لوٹ لیا گیا اور جو برباد ہوسکتا تھا اسے برباد کیا گیا۔ ’بڑچھ‘ قبیلے کے جو کچھ خاندان بچ گئے، وہ جوکھیوں کے پاس آ کر رہنے لگے‘۔
تاریخ طاہری میں رقم ہے کہ ’مرید نامی بلوچ کو مرزا صالح نے بعض عزیز و اقارب سمیت قید میں ڈال دیا تھا اور اس کے باپ کو قتل کردیا تھا۔ اس بنا پر مرید جت کو مرزا صالح سے سخت کینہ تھا۔ اپنے قوم اور قبیلے سے کہتا تھا کہ ’جب تک مرزا صالح کو بازار کے بیچ میں قتل نہ کروں گا تب تک اپنے سر پر دستار نہیں رکھوں گا‘۔
’اس لیے وہ گاؤں سے ٹھٹہ آیا اور بازار میں چاقو کو تیز کرتے ہوئے بڑبڑایا کرتا تھا کہ ’ہاں اے چاقو! تو کام کرے گا یا نہیں اور ہاں اے دل! وقت پر مضبوط رہنا۔ موقع پر بے دلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ مت کرنا‘۔ شہری اور سپاہی اس کی یہ باتیں سن کر اسے دیوانہ جانتے اور آس پاس کھڑے لڑکے اس کا مذاق اُڑاتے۔
’ایک دن موقع پاکر عین اس وقت جب مرزا صالح گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے محل کی طرف جا رہے تھے، وہ چھری کو کاغذ میں لپیٹ کر فریادیوں کی طرح ’فریاد فریاد‘ کا نعرہ بلند کرتا ہوا آیا۔ مرزا کے چوبدار اس کی عرض داشت (تلاشی) لینے کے لیے اس کی طرف دوڑے لیکن اس نے یہ کاغذ کسی کو نہیں دیا اور کہا کہ میں خود اسے مرزا کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں اور زبانی کچھ عرض بھی کرنا چاہتا ہوں۔
’یہ سن کر مرزا نے چوبداروں کو حکم دیا کہ اسے مت روکو، آنے دو۔ جب وہ قریب پہنچا تو اس نے کاغذ میں لپٹی چھری نکال کر مرزا کے پیٹ کو چیر ڈالا۔ فوراً چوبداروں نے مرید کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے‘۔
یہ واقعہ ہفتے کے دن 17 اپریل 1563ء پیش آیا۔ اس زمانے کی تاریخیں خاص طور پر ’تاریخ طاہری‘ اور ’تاریخ مظہر شاہ جہانی‘ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔
ان زمانوں میں ان قبائل کی وجہ سے شہروں سے باہر حالات اچھے نہیں تھے۔ بالخصوص مغلوں کے زمانے میں بیوپاری یا دیگر قافلوں کے لیے راستے محفوظ نہیں تھے۔ چونکہ یہ زیادہ تر قبائل کوہستان میں رہتے تھے جہاں حکومتوں کا بس یا حکومت نہیں چلتی تھی۔ آپ اگر اس کی مثال لینا چاہیں تو پہلی اینگلو افغان جنگ کا احوال پڑھ لیں جو انیسویں صدی کی ابتدا میں ہوئی تھی۔
کمپنی سرکار جس کے پاس اپنی فوج، ہتھیار، پیسہ، سسٹم اور وسائل تھے مگر پہاڑی علاقوں اور ان میں رہنے والوں کی نفسیات اور معروضی حالات کو اچھے طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ وہ بری طرح سے ہار گئے۔ مگر چونکہ یہاں جو ارغون، ترخان اور مغل آئے تھے وہ افغانستان سے اور پہاڑوں سے ڈھکے علاقوں سے آئے تھے تو ان قبائل کی نفسیات کو وہ سمجھتے تھے کہ بیوپاری یا دیگر قافلوں کو تحفظ دینا ہے تو سمندر کنارے اور کوہستانی علاقوں میں رہنے والے قبائل کو اپنے اعتماد میں لینا ہوگا۔
’جنت السندھ‘ کے مصنف رحیم داد مولائی شیدائی لکھتے ہیں کہ ’اورنگزیب 1649ء میں جب ملتان کا نائب تھا تب اس نے اپنی سیاسی چالبازیوں سے برفتوں، نوحانیوں، ھوتوں، جوکھیوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کردیا‘۔
مولائی شیدائی آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’اورنگزیب نے اپنی حکومت کے دنوں میں بلوچوں کی فوجی چوکیاں قائم کروائیں۔ ان دنوں کلمتی سرداروں کو دہلی دربار سے میرپور ساکرہ میں جاگیریں ملنے کے علاوہ سالانہ 960 روپے کا وظیفہ بھی ملتا تھا۔ دہلی حکومت نے کلمتیوں کی طرح نومڑیوں سے بھی رعایتیں کیں۔ پہلے وہ زمینوں پر لگان دیتے تھے لیکن پھر ٹھٹہ سے کوٹری اور سیہون جانے والے قافلوں سے محصول وصول کرنے پر مقرر ہوئے‘۔
بلوچستان اور ایران سے سندھ کے کوہستان اور جنوبی سندھ تک موسمی حالات کے مطابق صدیوں سے قافلے آتے اور جاتے رہے ہیں۔ ان قافلوں میں بیوپاریوں کے قافلے اور لوٹ مار کرنے والے لوگوں کے قافلے بھی آتے رہے ہیں۔ آپ اگر سندھ کی تاریخ کے سومرا، سمہ، کلہوڑا اور تالپور زمانوں کی سیاسی تاریخ کے حالات معلوم کریں گے تو ان کی جنگوں کے میدانوں میں آپ کو بلوچ جنگجو نظر آئیں گے۔ چونکہ بلوچستان کے چٹیل میدانوں اور مسلسل دوسری اقوام کے حملوں نے ان کو اپنی حفاظت کے لیے ہاتھ میں ہتھیار اور دل و دماغ میں بہادر اور نڈر ہونے کا سبق دیا اور معروضی حالات کا یہ ہی تقاضا تھا۔ چونکہ جنوبی سندھ میں سندھو کی بے تحاشا اور زرخیز زمینیں تھیں اور دھان، جوار اور باجرے کی صورت میں خوراک پانی بھی موجود تھا تو ایسے حالات میں آدمی جنگجو نہیں بنتا۔
اس حوالے سے تحقیق کرنے والے محترم گُل حسن کلمتی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ’15ویں صدی میں بالاکوٹ کے مَلکوں میں سے ملک حاجی خان ولد میر نوتق نے بڑچھوں کو شکست دے کر ملیر سے گھارو تک کا پورا علاقہ اپنے قبضے میں لیا اور ملیر ریاست کی بنیاد رکھی جو حب سے میرپور ساکرہ کے مغرب میں واقع اراضی تک قائم رہی۔
’کوہستان، ملیر، منگھوپیر، گڈاپ اور حب کے علاقے زراعت سے وابستہ تھے جہاں کلمتی، جوکھیا اور بُرفت قبیلے موجود تھے۔ وہ زراعت کے ساتھ گلہ بانی بھی کرتے جس کی وجہ سے ان کے معاشی حالات کافی بہتر تھے۔ ان برساتی نہروں کے کناروں پر لوگوں نے اپنے گاؤں بسائے اور ندی کے پانی اور اس کے آس پاس کنویں کھود کر کھیت آباد کیے۔ اس طرح یہاں کھیتوں کی صورت میں ہریالی کی چادر بچھ گئی۔ اس ہریالی اور شادابی کی وجہ سے اس کا نام ملیر پڑ گیا جو یقیناً اس پر جچتا بھی ہے۔
’یہاں کی مشہور گائے کی نسل بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ اسے ملیر سندھی ریڈ کاؤ (Malir Sindhi Red Cow) کہا جاتا ہے۔ ملیر کی لال رنگ کی گائے کی یہ نسل جو دیکھنے میں خوبصورت اور دودھ دینے میں لاجواب ہے، وہ فقط اسی ملیر وادی میں پائی جاتی ہے۔ اس کی خوراک تمر کے پتے ہیں۔ اس گائے کی نسل کے آسٹریلیا میں فارم ہیں جہاں ان کی افزائشِ نسل کا انتظام موجود ہے۔ تاہم وہاں بھی اسے ’ملیر کی لال سندھی گائے‘ کہا جاتا ہے‘۔
جنوب سے مشرق میں پھیلے سمندری کنارے، کراچی کے قرب و جوار سے لے کر حب تک کلمتی بلوچ، جوکھیا اور بُرفت نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کی آپس میں کبھی نہیں بنی۔ یہ دوسروں سے تو لڑ پڑتے ہی تھے جیسا کہ ہم پڑھ آئے ہیں لیکن یہ آپس میں بھی لڑ پڑتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُن میں لڑائی ہوجاتی۔ مگر ایک بات جو ان قبائل کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ کے ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ ان کی کہیں نہ کہیں آپس میں کیمسٹری ضرور تھی۔
ان کے زیادہ تر قبرستان ساتھ ہیں۔ ان کی قبروں کی بناوٹ بھی تقریباً ایک جیسی ہے۔ یہ قبائل جہاں جہاں آباد ہوئے ساتھ ساتھ ایک اراضی میں آباد ہوئے۔ اب ان تمام حقائق کا محرک یہ بھی ممکنات میں آتا ہے کہ یہ ایک جیسے معروضی حالات سے آئے اور ان کا ذریعہ معاش بھی تقریباً ایک جیسا ہی رہا اور یقیناً طبیعتاً بھی کوئی بڑا فرق نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ اکثر رسم و رواج بھی ایک جیسے ہوتے ہوں گے۔
ابھی ان زمانوں کے سیاسی حالات کا ذکر ختم نہیں ہوا اور ساتھ میں ان دنوں کی ریاستوں، سرداریوں، راجواڑوں اور خونخوار جنگوں کے محرکات کا ذکر بھی باقی ہے کیونکہ ان حقائق پر بات کرنے کے سوا، ہم اگر سنگ تراشی کے ان شاہکار قبرستانوں کا ذکر کریں گے تو یہ ایک نامکمل اور بے ذائقہ ذکر ہوگا۔
حوالہ جات
- کراچی سندھ جی مارئی’۔ گل حسن کلمتی۔ نئوں نیاپو پبلیکیشن، کراچی
- ’چوکنڈی اور قبائلی قبریں‘۔ کلیم اللہ لاشاری۔ محکمہ قدیم نواردات، حکومت سندھ
- ’کتھائیں جادوگر بستیوں کی‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’تاریخ مظہر شاہجہانی‘۔ یوسف میرک۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
- ’جنت السندھ‘۔ رحیمداد مولائی شیدائی’۔ سندھیکا، کراچی