• KHI: Maghrib 6:14pm Isha 7:29pm
  • LHR: Maghrib 5:41pm Isha 7:02pm
  • ISB: Maghrib 5:45pm Isha 7:08pm
  • KHI: Maghrib 6:14pm Isha 7:29pm
  • LHR: Maghrib 5:41pm Isha 7:02pm
  • ISB: Maghrib 5:45pm Isha 7:08pm

’عمران خان آئین سے متصادم ثابت نہیں کرسکے‘، سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بحال کردیں

شائع September 6, 2024
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی حکومت سمیت دیگر متاثرین کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور اور نیب ترامیم بحال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے بانی چیئرمین عمران خان نیب ترامیم کو آئین سے متصادم ثابت کرنے میں ناکام رہے۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ 6 جون کو محفوظ کیا تھا۔

نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر 16 صفحات پر مشتمل اپنا تحریر کردہ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی تھی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ تھے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل مسترد کی، تاہم اکثریتی فیصلے سے اتفاق کیا، جسٹس اطہر من اللہ کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے بھی اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق لیکن وجوہات سے اختلاف کیا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ بعد میں جاری کیا جائے گا، تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ نے 5 صفر سے فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس اور ججز پارلیمنٹ کے لیے گیٹ کیپر نہیں ہوسکتے، پارلیمان اور عدلیہ کا آئین میں اپنا اپنا کردار واضح ہے۔

’سپریم کورٹ کو قانون سازی جلد ختم کرنے کے بجائے بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے‘

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ نیب قانون میں حکومت نے تین ترامیم کیں، پہلی ترمیم 22 جون اور دوسری ترمیم 12 اگست 2022 کو کی گئی، نیب قانون میں تیسری ترمیم 29 مئی 2023 کو کی گئی، نیب ترامیم کے خلاف مقدمے کی 6 سماعتیں ہوچکی تھیں تو تیسری ترمیم لائی گئی، نیب قانون کی تیسری ترمیم کا سپریم کورٹ نے فیصلے میں جائزہ ہی نہیں لیا۔

اس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کو قانون سازی جلد ختم کرنے کے بجائے اس کو بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر کسی قانون کی دو تشریحات ہوں تو قانون کے حق میں آنے والی تشریح کو تسلیم کیا جائے گا، نیب ترامیم میں سے بہت سی ترامیم کے معمار بانی پی ٹی خود تھے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کے خلاف نیک نیتی سے درخواست دائر نہیں کی، نیب قانون میں تیسری ترمیم ٹرائل اور عدالتوں کی کارروائی سے متعلق ہے، بانی پی ٹی آئی کو ایڈوکیٹ خواجہ حارث کی خدمات سرکاری خرچ پر دی گئیں، تاہم وکیل خواجہ حارث نے بغیر پیسوں کے بانی پی ٹی آئی کی نمائندگی کی۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ پہلے ہونا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ کو اصولی طور پر قانون کے منافی قائم بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے کے 34 دن بعد نیب قانون بنایا گیا، پرویز مشرف نے آئین کو معطل اور پس پست ڈال کر کر نیب قانون بنوایا، پرویز مشرف نے اس کے حق میں فیصلہ نہ دینے والے ججز کو عہدے سے ہٹا دیا۔

فیصلے کے مطابق پرویز مشرف نے آئینی جمہوری آرڈر کو باہر پھینکا اور اپنے لیے قانون سازی کی، اعلی عدلیہ کے ان ججز کو ہٹایا جنہوں نے غیر آئینی اقدام کی توسیع نہیں کی، جو سیاست دان مشرف کی اسپانسرڈ جماعتوں میں شامل ہوئے، ان کے کیسز ختم کر دیے گئے، نیب قانون سیاسی انتقام اور انجینئرنگ کے لیے قائم ہوا، پرویز مشرف کے حامی آئین کو پامال کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔

ججز، آرمڈ فورسز نیب قانون سے مستثنی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ چیف جسٹس کے اکثریتی فیصلہ سے اتفاق کرتا ہوں، حکومتی اپیلیں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کےتحت قابل سماعت نہیں.

انہوں نے کہا کہ حکومت کی انٹرا اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں، متاثرہ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی جاتیں ہیں، نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججز اور آرمڈ فورسز کے ارکان کو نیب قانون سے استثنی حاصل نہیں، اضافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی تھی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔

6 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ آپ 90 دنوں میں نیب ریمانڈ سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ 50 کرڑو سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں؟

اس سے گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔

سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کیس کی سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا، عمران خان نے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی، وہ تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت میں حاضر رہے۔

14 مئی کو سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ وڈیولنک پیش ہونے کی اجازت دی تھی۔

پس منظر

واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔

فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی تھیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے تھے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کے ختم کیے گئے ‏تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔

فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے تھے۔

بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

درخواست میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔

اپیل میں فیڈریشن، نیب اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمانی اختیار سے متجاوز ہے۔

کارٹون

کارٹون : 6 اکتوبر 2024
کارٹون : 4 اکتوبر 2024