کراچی میں کورنگی ڈھائی سے مزید 2 بچے لاپتا
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بچے لاپتا ہونے کا سلسلہ جاری ہے، شہر قائد کے علاقے کورنگی نمبر ڈھائی سے 2 کمسن بھائی لاپتا ہو گئے، تاہم پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ کوئی خاندانی تنازع ہو سکتا ہے۔
پولیس کے مطابق زمان ٹاؤن پولیس کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) عتیق رحمٰن نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ مشتبہ شخص کورنگی نمبر ڈھائی پر کوسٹ گارڈ چورنگی کے قریب گھر پر پہنچا اور بچوں کو ان کے نام سے پکارا اور انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔
پولیس افسر نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں جوڑے کے درمیان علیحدگی ہو گئی تھی اور ایک ماہ قبل پشاور ہائی کورٹ نے بچوں کو ان کی والدہ کے حوالے کر دیا تھا، اس طرح بظاہر یہ واقعہ حوالگی پر فیملی تنازع کے معاملہ ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی میں بچوں کی گمشدگی اور لاشیں ملنے کا سلسلہ نہ تھم سکا تھا ، گزشتہ روز شہر قائد میں مختلف مقامات سے 2 نومولود بچوں کی لاشیں ملی تھیں۔
گلستان جوہر بلاک 16 کے نالے سے نومولود کی لاش برآمد ہوئی تھی، اسی طرح گلشن اقبال بلاک (اے) (فور) کے قریب کچرا کنڈی سے نومولود بچے کی لاش ملی تھی۔
رواں ماہ جنوری میں شہر کے مختلف علاقوں سے 6 نوزائیدہ بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔
واضح رہے کہ 18 جنوری کو کراچی میں نارتھ کراچی کے علاقے میں 11 روز سے لاپتا 7 سالہ بچے صارم کی لاش گھر کے قریب زیر زمین پانی کے ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔
اس کے بعد سے کراچی میں بچوں کی گمشدگی کا سلسلہ نہ تھم سکا تھا اور 22 جنوری کو پی آئی بی کالونی سے ایک اور بچہ لاپتا ہوگیا تھا جبکہ گارڈن سے لاپتا ہونے والے بچوں کا کئی روز گزرنے کے بعد بھی کچھ پتا نہیں چل سکا تھا۔
جس پر وزیراعلیٰ سندھ اور وزیر داخلہ نے نوٹس لیا تھا اور پولیس کو فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی، بعد ازاں 23 جنوری کو کراچی پولیس چیف نے افسران کو حکم دیا تھا کہ لاپتا بچوں کی بازیابی کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کی اگست کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں ملک بھر میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے کل 1630 کیسز رپورٹ ہوئے۔
اس کے علاوہ سال 2024 کے ابتدائی 6 ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 862، اغوا کے 668، گمشدگی کے 82 اور کم عمری کی شادیوں کے 18 کیسز رپورٹ ہوئے۔
6 ماہ کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ رپورٹ ہونے والے کل کیسز میں سے 962 متاثرین میں 59 فیصد لڑکیاں تھیں جب کہ 668 یعنی 41 فیصد لڑکے تھے۔