• KHI: Maghrib 6:41pm Isha 7:57pm
  • LHR: Maghrib 6:11pm Isha 7:32pm
  • ISB: Maghrib 6:16pm Isha 7:39pm
  • KHI: Maghrib 6:41pm Isha 7:57pm
  • LHR: Maghrib 6:11pm Isha 7:32pm
  • ISB: Maghrib 6:16pm Isha 7:39pm

کیا نیو انرجی گاڑیاں پاکستان کی روایتی آٹو انڈسٹری کو تبدیل کر رہی ہیں؟

شائع March 12, 2025

پاکستان کی آٹوموٹو انڈسٹری ایک بڑی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ اس وقت یہاں متعدد کمپنیاں مارکیٹ میں نیو انرجی وہیکلز (این ای وی) گاڑیاں متعارف کرا رہی ہیں۔ دنیا کی نمبر ون این ای وی مینوفیکچر چینی آٹو میکر بی وائی ڈی (BYD) کی وجہ سے اس عمل میں تیزی آئی جس نے حال ہی میں پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھا ہے، اور اسکی وجہ سے دوسرے حریفوں نے بھی اس کی پیروی کی ہے۔ الیکٹرک ٹرانسپورٹیشن کی طرف منتقلی کئی اہم عوامل کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ان میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق خدشات سب سے اہم ہیں، کیونکہ پاکستان کو سنگین نوعیت کے ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، اور شہروں میں موسمیاتی تبدیلی اور صحت کے مسائل بڑھنے کی ایک وجہ فضائی آلودگی ہے۔

ٹرانسپورٹ کا شعبہ ملک میں مجموعی طور پر کاربن کے اخراج میں تقریباً 43 فیصد حصہ رکھتا ہے، جس کی وجہ سے صحت مند متبادل کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کاربن کے اخراج میں ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان سالانہ 17 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے جبکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں اتارچڑھاؤ کا شکار رہتی ہیں جن کی وجہ سے ایندھن سے چلنے والی روایتی گاڑیاں صارفین کے لئے مہنگی ثا بت ہو رہی ہیں ۔ مزید برآں، پاکستانی حکومت نے این ای وی گاڑیوں کی مارکیٹ میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، جس میں این ای وی کی درآمدات پر ڈیوٹیوں میں کمی اور انکی مقامی اسمبلی کے لئے ٹیکس فوائد جیسی مراعات متعارف کرائی گئی ہیں تاکہ ان گاڑیوں کی عوام میں قبولیت اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔

اس مارکیٹ میں آنے والے مختلف کمپنیوں میں، بی وائی ڈی پائیداری اور جدت سے متعلق اپنے عزم کی وجہ سے نمایاں نظر آتی ہے۔ کمپنی کا مشن اس سلوگن ”زمین کو 1 فیصد ٹھنڈا کرنا“ میں بیان کیا گیا ہے، اس سلسلے میں وسیع پیمانے پر این ای وی گاڑیوں کی قبولیت کے ذریعے عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں کم کرنے سے متعلق اسکے عزم کی عکاسی ہوتی ہے۔ 2023 میں بی وائی ڈی نے پہلی بار سہ ماہی فروخت میں ٹیسلا کو پچھاڑ دیا۔ ٹیسلا کی 484,000 گاڑیوں کے مقابلے میں بی وائی ڈی کی 526,000 سے زیادہ بیٹری الیکٹرک گاڑیاں (بی ای وی) فروخت ہوئیں۔ یہ بڑی کامیا بی بی وائی ڈی کو صف اول کی این ای وی مینوفیکچرر کے طور پر سامنے لے آئی جس کی بڑی وجہ اس کی مسابقتی قیمتیں، ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں مضبوط موجودگی اور جدید بیٹری ٹیکنالوجی ہے۔ بہت سی دیگر کمپنیوں کے برعکس بی وائی ڈی کا اپنی سپلائی چین پر مکمل کنٹرول ہے، جو اپنی بیٹریاں اور سیمی کنڈکٹر چپس تیار کرتا ہے، اور لاگت کی کارکردگی اور مصنوعات کے قابل اعتماد ہونے کو یقینی بناتا ہے۔ اس حکمت عملی کی بنیاد پر بی وائی ڈی مارکیٹ کی مسابقتی قیمتوں پر اعلیٰ معیار کی این ای وی گاڑیاں تیار کرتی ہے، اور اسی وجہ سے وہ قیمتوں کے حوالے سے پاکستان جیسی حساس مارکیٹوں سمیت وسیع پیمانے پر سامعین کے لئے زیادہ قابل رسائی بن جاتی ہے۔

این ای وی میں عوام کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باوجود، بہت سے لوگوں کو خدشات لاحق ہیں، ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ بنیادی ڈھانچے، چار جنگ اسٹیشنوں اور الیکٹرک کاروں کی پیشگی قیمت سے متعلق شکوک و شبہات کی وجہ سے پاکستانی عوام میں اسکی قبولیت کا عمل سست روی کا شکار ہو گا۔ تاہم، تا ریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ جب ایک با رسب کو واضح طور پر فائدہ نظر آنے لگتا ہے تو لوگ نئی ٹیکنالوجی توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے قبول کرنے لگتے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں جدت کی وجہ سے ہماری روزمرہ زندگی مسلسل تبدیل ہو رہی ہے، ہم پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے نئی ٹیکنالوجیز کواختیار کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے، تار والے ہیڈ فون کا استعمال عام تھا لیکن ایئر پوڈز اور دیگر وائر لیس ایئر بڑ زمارکیٹ میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ روایتی گھڑیوں کی جگہ بڑے پیمانے پر اسمارٹ واچز نے لے لی ہے، اور یہاں تک کہ روبوٹک ویکیوم کلینرز کی آمد کے ساتھ گھر یلو صفائی میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ تبدیلیاں متوازی نظر آتی ہیں کیونکہ لوگوں نے سہولت، کارکردگی اور طویل مدتی فوائد کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔

جس طرح پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری روایتی بجلی سے شمسی توانائی کی طرف منتقل ہو رہی ہے، اس طرح بیشتر اوقات فیصلہ سازی کے عمل میں صرف سہولت کے بجائے طویل مدتی بچت کی حکمت عملیوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ بالکل، یہی بات بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی قبولیت پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اگر چہ این ای وی کی پیشگی لاگت زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن کم آپریشنل اور دیکھ بھال کے محدود اخراجات، حکومت کی ترغیبات کے ساتھ مل کر، این ای وی گاڑیوں کا انتخاب طویل مدت میں اسے ایک اسمارٹ سرمایہ کاری بناتے ہیں۔ الیکٹرک گاڑی کا انتخاب کرنے والے لوگ اب صرف قلیل مدتی فوائد پر توجہ مرکوز نہیں کرتے بلکہ وہ ایسا انتخاب کرتے ہیں جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پائیداری اور مالی فوائد حاصل ہوں۔

جب پائیدار نقل وحمل کی بات آتی ہے تو بی وائی ڈی اس روایتی سوچ کو تبدیل کرنے میں سب سے آگے ہے۔ اپنی جدید ڈی ایم آئی سپر ہائبرڈ ٹیکنالوجی (DMI Super Hybrid technology) کے ساتھ، بی وائی ڈی ایک ایسا انوکھا حل فراہم کرتا ہے جو فیول کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے طویل مدتی لاگت کی بچت فراہم کرتا ہے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ وہ بہترین، اعلیٰ کارکردگی والے لگژری نیچر بھی پیش کرتا ہے۔ مالی فوائد کے علاوہ، بی وائی ڈی ماحولیاتی پائیداری سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔ یہ عزم کمپنی کے عالمی ماحولیاتی اہداف کی ادائیگی سے متعلق مشن کی عکاسی کرتا ہے، جس سے اس کی نیو انرجی کی گاڑیاں نہ صرف ایک اسمارٹ مالیاتی سرمایہ کاری بن جاتی ہیں بلکہ سرسبز مستقبل کی طرف بھی آگے بڑھتی ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اپنی آٹوموٹو تاریخ کے اہم موڑ سے گزر رہا ہے، بی وائی ڈی جیسے بڑے اداروں کی قیادت میں این ای ویز گاڑیوں کا عروج ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے ۔ ماحولیاتی تقاضوں، اقتصادی پہلوؤں اور تکنیکی ترقی کے امتزاج نے نیو انرجی و یہکلز (گاڑیوں) کو پاکستان میں ٹرانسپورٹیشن کے منظر نامے کے مستقبل کے طور پر پیش کیا ہے۔ اگر چہ اس کام میں چیلنجز باقی ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ جب ٹیکنالوجی واضح فوائد پیش کرتی ہے تو اسکی قبولیت کا عمل تیزی سے ہونے لگتا ہے۔ بی وائی ڈی جیسی کمپنیوں کی زیر قیادت پاکستان اس بڑی تبدیلی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے اور آنے والے سالوں میں نئی توانائی کی گاڑیوں کو اپنی آٹو انڈسٹری کا ایک اہم جزو بنا دے گا۔

کارٹون

کارٹون : 16 مارچ 2025
کارٹون : 15 مارچ 2025