کراچی: 2 ماہ میں ریبیز سے 6 اموات، کتے کے کاٹے کے 8 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ
کراچی اور صوبے کے دیگر حصوں میں کتوں کی آبادی پر قابو پانے کے لیے حکومتی کوششوں کے فقدان کے باعث ریبیز سے کم از کم 6 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور رواں سال اب تک صرف کراچی کے 3 ہسپتالوں میں کتوں کے کاٹنے کے 8 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی)، ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی (سی ایچ کے) اور انڈس ہسپتال سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق رواں سال اب تک 3 بڑے طبی مراکز میں کتوں کے کاٹنے کے 8 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
جے پی ایم سی اور انڈس ہسپتال میں اس سال ریبیز سے 3،3 اموات ہوچکی ہیں تاہم سول ہسپتال میں کوئی موت واقع نہیں ہوئی، ریبیز سے تازہ ترین موت انڈس ہسپتال میں ہوئی، جہاں منگل کو ایک شخص دم توڑ گیا۔
ریبیز کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے انڈس ہسپتال کے ریبیز پریوینشن اینڈ ٹریننگ سینٹر کے منیجر آفتاب گوہر نے بتایا کہ 40 سالہ مریض کو 2 ہفتے قبل پنو عاقل میں ان کے گاؤں میں آوارہ کتے نے کاٹ لیا تھا اور 2 روز قبل انہیں ہسپتال لایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مریض علاج کے لیے کسی بھی ہسپتال نہیں گیا تھا اور 2 دن پہلے اس میں ہائیڈرو فوبیا، ایروفوبیا اور ذہنی عدم توازن کی علامات ظاہر ہوئی تھیں، ہم نے مریض کو دیکھ بھال کے لیے داخل کیا تاہم منگل کو اس کی موت ہو گئی۔
آفتاب گوہر کے مطابق ہسپتال میں کتوں کے کاٹے کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر 150 کیسز سامنے آرہے ہیں، اس تعداد میں 70 سے 80 پرانے کیسز بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم بلا اشتعال کاٹنے کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں، جو تشویشناک ہے‘۔
اس سال اب تک کتے کے کاٹے کے 3 ہزار سے زائد مریضوں کا ہسپتال میں علاج کیا جا چکا ہے، گزشتہ سال انڈس ہسپتال میں کتوں کے کاٹے کے 15 ہزار سے زائد کیسز کا علاج کیا گیا تھا جس میں ریبیز کے 8 مریضوں کی موت ہوئی تھی۔
سول ہسپتال کراچی کے ڈاکٹروں نے کتوں کے کاٹے کے واقعات میں اضافے سے متعلق رائے کی تائید کی اور بتایا کہ ہسپتال میں اس سال 3 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
ایک ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ ’90 فیصد مریض کراچی سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کو گہرے زخموں کے ساتھ لایا گیا تھا جس کے لیے ویکسین کے ساتھ زندگی بچانے والے ریبیز امیونوگلوبلین (آر آئی جی) کو فوری طور پر استعمال کرنے کی ضرورت تھی‘۔
انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال سول ہسپتال میں کتے کے کاٹے کے 16 ہزار سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا گیا تھا۔
جے پی ایم سی کے ذرائع نے بتایا کہ اس سال کتے کے کاٹے کے 2400 کیسز سامنے آئے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں مسلسل اضافے کا براہ راست تعلق شہر میں کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے ہے جسے صرف بڑے پیمانے پر کتوں کی ویکسی نیشن اور نس بندی کے ذریعے ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
وہ کتوں کے کاٹنے سے ہونے والے زخموں کے علاج کے لیے ضلعی سطح پر مخصوص مراکز کے قیام پر بھی زور دیتے ہیں کیونکہ ریبیز 100 فیصد کیسز میں مہلک ہوتا ہے۔
وائرس کو مرکزی اعصابی نظام تک پہنچنے سے روک کر فوری پوسٹ ایکسپوزر پروفیلیکسس (پی ای پی) کے ذریعے انفیکشن سے ہونے والی اموات کو روکا جاسکتا ہے۔
ریبیز کو مکمل طور پر روکا جاسکتا ہے اگر کتے کے کاٹے سے بننے والے زخم کو فوری طور پر اچھی طرح سے صابن اور بہتے پانی سے دھویا جائے اور اس کے بعد ہر زخم میں ایک موثر اینٹی ریبیز ویکسین سیریز اور آر آئی جی انجکشن لگایا جائے۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کی تحریر کردہ ایک تحقیق میں کلینیکل اور صحت عامہ کے طریقوں میں فرق کی نشاندہی کی گئی تھی جہاں کتے کے کاٹنے کے بعد ریبیز کا علاج انتہائی ناکافی ہے۔
بیان میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ویکسین کی خریداری اور ان کی دستیابی کو برقرار رکھنے کے لیے بنیادی ڈھانچے اور سپلائی چین کو بہتر بنائے اور عملے کو کتوں کے کاٹے کے علاج کی تربیت دے اور کتوں کی ویکسی نیشن اور انسانی طریقوں سے ان کی آبادی کو کم کرکے ایک صحت کی حکمت عملی کو اپنائے۔