ٹرمپ کا محصولات 90 روز کیلئے معطل، چین پر ٹیرف 125 فیصد کرنے کا اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے کئی نئے ٹیرف 90 روز کے لیے معطل کرنے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی چینی مصنوعات پر عائد ٹیرف میں مزید 21 فیصد اضافہ کرکے 125 فیصد کردیا۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی صدر کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ان کی جانب سے اپنے تجارتی شراکت داروں پر عائد کردہ بھاری محصولات کے نفاذ کو 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے۔

ٹرمپ کے نئے تجارتی اقدامات نئے عالمی منڈیوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور کساد بازاری کے خطرات کو بڑھا دیا ہے جب کہ چین اور یورپی یونین کو جوابی اقدامات کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
امریکی صدر نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ’وہ چینی درآمدات پر ٹیرف کو 104 فیصد سے بڑھا کر 125 فیصد کر رہے ہیں‘۔
ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں یہ اعلان بھی کیا کہ دیگر ممالک پر عائد کردہ مخصوص ٹیرف میں کمی کرنے کی جائے گی۔
ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں لکھا ’میں نے نئے ٹیرف 90 دن کے لیے روک دیے ہیں، تاہم اس دوران سب سے کم عائد کردہ ٹیرف ’10 فیصد‘ کا نفاذ فوری طور پر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ 75 سے زائد ممالک نے ٹیرف کے حوالے سے مذاکرات کے لیے رابطہ کیا ہے، یہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے امریکا کے خلاف جوابی اقدام نہیں اٹھایا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ میں یکدم تیزی آگئی۔
اس سے قبل، چین اور یورپی یونین کی جانب سے ٹرمپ کے عائد کردہ بھارتی ٹیرف کے جواب میں امریکی مصنوعات پر نئی تجارتی پابندیوں کا اعلان کیا گیا تھا جس نے تجارتی جنگ میں مزید شدت پیدا کردی تھی۔
یورپی یونین نے امریکا پر جوابی ٹیرف عائد کردیا
یورپی یونین کی جانب سے کہا گیا کہ وہ جوابی اقدامات کے تحت پہلے مرحلے میں امریکی درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
یورپی بلاک نے جن امریکی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کا اعلان کیا ہے ان میں سویابین، فروٹ، لکڑی، موٹر سائیکل اور بیوٹی پروڈکٹ شامل ہیں۔
یاد رہے کہ 27 رکنی یورپی یونین کو امریکا کی جانب سے بیشتر مصنوعات پر 20 فیصد ٹیرف اور آٹو و اسٹیل پر اس سے بھی زیادہ شرح میں ٹیرف نافذ کیا گیا تھا۔
امریکا کے قریبی اتحادی اور بڑے تجارتی شراکت دار کینیڈا میں بھی آج سے جوابی اقدامات نافذ العمل ہوگئے۔
جاپان سے لے کر مڈغاسکر تک درجنوں ممالک پر ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ بھاری محصولات کا نفاذ آج سے ہوگیا تھا، یہ اقدامات دہائیوں سے قائم عالمی تجارتی نظام کو ختم کرنے کی جانب ایک اور قدم ہیں۔
مختلف اندازوں کے مطابق، دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ میں اب اوسط ٹیرف 20 فیصد سے تجاوز کر چکے ہیں، جو ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے صرف 2.5 فیصد تھے۔
چین کا امریکا پر جوابی وار
چین کی وزارت خزانہ نے بدھ کے روز امریکی مصنوعات پر 84 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کردیا جس سے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شروع کی گئی عالمی تجارتی جنگ میں مزید شدت آگئی۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے چینی مصنوعات کی درآمد پر مجموعی طور پر 54 فیصد (20 فیصد کے علاوہ اضافی 34 فیصد) ٹیرف عائد کیا تھا جس کے جواب میں چین نے تمام امریکی اشیا کی درآمد پر 34 فیصد اضافی ٹیرف عائد کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں، چین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 50 فیصد نئے محصولات عائد کرنے بعد امریکی مصنوعات پر مزید ٹیرف عائد کردیے تھے جو مجموعی طور پر 84 فیصد بنتے ہیں، جس کے جواب میں ٹرمپ نے اب پھر چین پر مزید 21 فیصد ٹیرف عائد کردیے جو مجموعی طور پر 125 فیصد بنتے ہیں۔
بیجنگ نے مسلسل ٹیرف میں اضافے کی مخالفت کی ہے اور آج صبح وضاحتی بیان میں کہا کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ’ٹھوس اور مؤثر‘ اقدامات کرے گا۔
چین کی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکا کی جانب سے چین کے خلاف ٹیرف میں اضافہ درحقیقت غلطیوں پر مزید غلطیاں کرنے کے مترادف ہے اور چین کے جائز حقوق اور مفادات کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب، امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے فاکس بزنس نیٹ ورک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں چین کے نئے ٹیرف کو ’بدقسمتی‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا ’جدید دنیا کی تاریخ میں ان کی معیشت سب سے زیادہ غیر متوازن ہے اور میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ یہ کشیدگی ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔













لائیو ٹی وی