امریکا کیساتھ مذاکرات سے مطمئن، تاہم یہ کسی بھی وقت بےنتیجہ ثابت ہوسکتے ہیں، خامنہ ای
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مذاکرات سے مطمئن ہیں، لیکن خبردار کیا ہے کہ یہ مذاکرات کسی بھی وقت بے نتیجہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق تہران اور واشنگٹن 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے ایک ہفتے بعد ہفتہ کے روز مسقط میں دوبارہ ملاقات کرنے والے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے اپنے پہلے دور حکومت میں اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی تھی، اب انہوں نے جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد زیادہ سے زیادہ دباؤ اور پابندیوں کی اپنی مہم کو دوبارہ شروع کیا ہے۔
مارچ میں ٹرمپ نے خامنہ ای کو ایک خط بھیجا تھا جس میں مذاکرات پر زور دیا گیا تھا اور متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر ایران انکار کرتا ہے تو ممکنہ فوجی کارروائی کی جائے گی۔
سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق خامنہ ای نے کہا کہ امریکا سے بات چیت ’پہلے مرحلے میں مثبت رہی، یقیناً ہم دوسرے فریق کے بارے میں بہت مایوس ہیں، لیکن ہم اپنی صلاحیتوں کے بارے میں پرامید ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کسی بھی وقت مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوسکتے ہیں۔‘
ایران کے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود، دونوں فریقین نے مذاکرات کو ’تعمیری‘ قرار دیا ہے، ایران کا اصرار ہے کہ بات چیت ’بالواسطہ‘ اور عمان کی ثالثی میں جاری رہے گی۔
ٹرمپ کی دھمکیاں
پیر کے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دھمکی دی تھی کہ اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کریں گے، اور ایرانی حکام کو ’بنیاد پرست‘ قرار دیا تھا جن کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں۔
تہران نے ایٹم بم کے حصول سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد بالخصوص توانائی کی پیداوار کے لیے ہے۔
خامنہ ای نے کہا کہ ایران کی ریڈ لائنز واضح ہیں۔
اس سے قبل منگل کے روز ایران کے پاسداران انقلاب نے کہا تھا کہ بات چیت کے دوران ملک کی فوجی صلاحیتوں پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے ترجمان علی محمد نینی نے کہا تھا کہ قومی سلامتی، دفاعی اور فوجی طاقت اسلامی جمہوریہ ایران کی سرخ لکیروں میں شامل ہیں، جن پر کسی بھی صورت میں بات چیت یا مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔
پیر کے روز مشرق وسطیٰ میں امریکی سفیر اسٹیو وٹکوف (جنہوں نے عمان میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کی تھی) نے کہا کہ ایران کو 2015 کے معاہدے میں طے شدہ 3.67 فیصد افزودگی کی سطح پر واپس آنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ یہ عمل افزودگی کے پروگرام کی تصدیق اور پھر ہتھیاروں کی تصدیق کے بارے میں ہوگا، جس میں میزائل اور ان کی مختلف اقسام کے علاوہ بم کا ٹریگر بھی شامل ہے۔
عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ کا دورہ ایران
فروری میں اپنی تازہ ترین سہ ماہی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے کہا تھا کہ ایران کے پاس ایک اندازے کے مطابق 274.8 کلوگرام یورینیم افزودہ ہے جو 60 فیصد تک ہے، جو ہتھیاروں کے معیار کے مواد کے لیے درکار 90 فیصد کی حد کے قریب ہے۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی آج ایران کا دورہ کریں گے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ کا کہنا ہے کہ ایران کے علاقائی اثر و رسوخ اور اس کی میزائل صلاحیتوں کو مغربی حکومتوں کی جانب سے طویل عرصے سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔