پاکستان کا پہلگام حملے میں سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں پہلگام حملے میں سیاحوں کی جانوں کےضیاع پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ پہلگام حملے میں سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش ہے، ہم مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں، زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے نیک تمنائیں ہیں۔
پاکستان نے بدھ کے روز کہا کہ اسے سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش ہے کیونکہ ایک روز قبل مقبوضہ کشمیر کے ایک مشہور مقام پر مسلح افراد نے سیاحوں پر فائرنگ کی تھی جس میں 26 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ حملہ پہلگام میں ہوا، جو مسلم اکثریتی علاقے کا سیاحتی مرکز ہے، جہاں ہر موسم گرما میں ہزاروں سیاح آتے ہیں، کیونکہ حالیہ برسوں میں مسلح افراد کے تشدد میں کمی آئی ہے۔
سیکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ 2000 کے بعد سے شہریوں پر ہونے والے اس مہلک ترین حملے میں کم از کم 26 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ مرنے والوں میں بحریہ کا ایک افسر اور غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت خان نے بیان میں کہا کہ ہمیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے میں سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہلاک شدگان کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے موسم گرما میں پہلگام میں ہونے والی اس ’گھناؤنی کارروائی‘ کی مذمت کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
یہ ہلاکتیں نئی دہلی میں مودی کی امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کے ایک دن بعد ہوئی ہیں، جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بھارت کے 4 روزہ دورے پر ہیں۔
متاثرین میں سے کچھ کا تعلق بھارت کے دور دراز علاقوں سے تھا جن میں تامل ناڈو، مہاراشٹرا اور کرناٹک شامل ہیں۔
پہلگام، سرینگر کے اہم شہر سے سڑک کے ذریعے 90 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ گھاس کے خوبصورت میدان پر واقع ہے جسے بھارتی فلموں میں پس منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جن میں بوبی قابل ذکر ہے۔
یہ سالانہ امرناتھ یاترا (بھگوان شیو کے لیے وقف ایک غار کی ہندو یاتر) کے راستے پر بھی آتا ہے، جو اسے مقبوضہ جموں و کشمیر کے سب سے محفوظ علاقوں میں سے ایک بناتی ہے۔
انتہائی محفوظ علاقے میں ہونے والے اس وحشیانہ حملے نے پورے خطے کو حیران میں مبتلا کردیا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری ایک نامعلوم گروپ نے قبول کی ہے جسے متعدد بھارتی اداروں نے ’مزاحمتی محاذ‘ کا نام دیا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے سال 2000 میں دہلی کے دورے سے پہلے پیش آیا تھا، جب 36 بھارتی مارے گئے تھے لیکن اس بات کو لے کر کافی تنازع ہے کہ یہ کس نے کرایا تھا۔
اس وقت بھارت نے پاکستان میں مقیم عسکریت پسندوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا لیکن بھارتی اور کشمیری مبصرین نے اسے بھارتی فوج کی مبینہ سازش قرار دیا تھا۔