ہاروی وائنسٹن کے خلاف دوبارہ ٹرائل کل سے شروع ہوگا
اداکاراؤں و دیگر خواتین سے ریپ کے الزام میں 23 سال کی سزا کالعدم ہونے پر ہاروی وائنسٹن کے خلاف ’ریپ‘ مقدمے کے دوبارہ ٹرائل کا آغاز 24 اپریل سے ہوگا۔
برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق ہاروی وائنسٹن کے خلاف دوبارہ ٹرائل کے لیے 12 رکنی جیوری ارکان کا انتخاب مکمل کرلیا گیا جب کہ 6 متبادل جیوری ارکان کو بھی منتخب کرلیا گیا۔
اس بار ہاروی وائنسٹن کے مقدمے کی سماعت کرنے والی جیوری میں 7 خواتین جب کہ 5 مرد شامل ہوں گے، اس سے قبل 2017 میں ان کے خلاف ہونے والی سماعت میں 7 مرد اور پانچ خواتین شامل تھیں۔
ہاروی وائنسٹن کے خلاف دوبارہ ٹرائل کا آغاز امریکی وقت کے مطابق 24 اپریل کی صبح سے ہوگا اور پروڈیوسر کو دوران ٹرائل علاج کے سلسلے میں ہسپتال میں رہنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔
ہاروی وائنسٹن 23 سال قید کی سزا کاالعدم ہونے کے باوجود جیل میں ہیں، کیوں کہ انہیں ایک اور مقدمے میں 16 سال قید کی سزا ملی ہوئی۔
ہاروی وائنسٹن 2020 سے جیل میں ہیں اور انہیں قید میں رہتے ہوئے 5 سال ہو چکے ہیں، انہوں نے ہمیشہ اپنے خلاف دیے جانے والے فیصلوں کو یک طرفہ قرار دیا ہے۔
فلم پروڈیوسر نے 2020 میں خود کو 23 سال کی دی جانے والی سزا کے خلاف نیویارک کی کورٹ میں اپیل کی تھی، جس پر نیویارک کی اپیل کورٹ نے اپریل 2024 میں انہیں دی جانے والی 23 سال قید کی سزا کاالعدم قرار دی تھی۔
نیویارک کی اپیل کورٹ نے مئی 2024 میں اعلان کیا تھا کہ ہاروی وائنسٹن کے خلاف 23 سال قید کی سزا کے ریپ کیس کا دوبارہ ٹرائل ہوگا۔
ہاروی وائنسٹن مارچ کو 2020 میں نیویارک کی ایک عدالت نے جیسیکا من سے ریپ کے الزام میں 23 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
سزا سنائے جانے کے چار سال بعد عدالت نے ہاروی وائنسٹن کو دی گئی سزا کاالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں کمزور شواہد پر سزا سنائی گئی اور گواہوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات ہاروی پر عائد الزامات کا حصہ ہی نہیں تھے۔
اگر دوبارہ ٹرائل میں وہ بے قصور ہوتے ہیں اور سزا انہیں مکمل طور پر پہلے کیس سے آزاد کردیتی ہے، تو بھی وہ 16 سال قید کے کیس میں جیل میں ہی رہیں گے۔
دوبارہ ٹرائل کے موقع پر ہاروی وائنسٹن کے خلاف پہلے الزامات لگانے والی خواتین و اداکارائیں بھی دوبارہ عدالت میں گواہی دیں گی۔
ہاروی وائنسٹن پر سب سے پہلے اکتوبر 2017 میں خواتین نے ریپ اور جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے اور ان پر مجموعی طور پر 80 سے زائد خواتین نے الزامات لگا رکھے ہیں، جن کی پروڈیوسر نے ہمیشہ تردید کی۔
ان پر الزامات سامنے آنے کے بعد ہی دنیا بھر میں ’می ٹو مہم‘ کا آغاز ہوا تھا اور دیگر ہولی وڈ شخصیات کے خلاف بھی اسی طرح کے ریپ مقدمات دائر کیے گئے اور متعدد کو سزائیں بھی ہوئیں۔