بھارت بھر میں کشمیری طلبہ کو دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا
مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے پہلگام حملے میں دو درجن سے زائد بھارتی شہریوں کی ہلاکت کے بعد بھارت میں ہراساں کیے جانے اور ڈرانے دھمکانے کی شکایت کی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق منگل کو پہلگام کے سیاحتی مقام پر مسلح افراد نے 26 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جن میں ایک نیپالی کو چھوڑ کر تمام بھارتی شہری شامل تھے، یہ سال 2000 کے بعد متنازع مسلم اکثریتی علاقے میں شہریوں پر ہونے والا سب سے مہلک حملہ ہے۔
جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے کنوینر ناصر کھوہامی نے بتایا کہ اس واقعے کے پیش نظر بدھ کو اتراکھنڈ، اتر پردیش اور ہماچل پردیش سمیت بھارتی ریاستوں میں کشمیری طلبہ کو مبینہ طور پر اپنے کرائے کے اپارٹمنٹس یا یونیورسٹی ہاسٹل چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ہماچل پردیش کی ایک یونیورسٹی میں ہاسٹل کے دروازے توڑنے کے بعد طلبہ کو ہراساں کیا گیا اور ان پر جسمانی تشدد کیا گیا، انہوں نے کہا کہ طلبہ کو مبینہ طور پر دہشت گرد کہا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک مخصوص علاقے اور شناخت کے طلبہ کے خلاف نفرت اور بدنامی کی جان بوجھ کر اور ہدف بنا کر چلائی جانے والی مہم ہے۔
اتراکھنڈ کے دارالحکومت دہرادون میں دائیں بازو کے انتہا پسند گروپ ہندو رکشا دل کے انتباہ کے بعد بدھ کو تقریباً 20 طلبہ ایئرپورٹ فرار ہوگئے۔
طلبہ کا کہنا تھا کہ اس گروپ نے کشمیری مسلم طلبہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے فوری طور پر شہر نہیں چھوڑا تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ وہ ریاستی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جہاں طلبہ نے غیر محفوظ محسوس کرنے کی اطلاع دی ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ اضافی احتیاط کریں۔
مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ تاجروں اور طلبہ کو کھلے عام دھمکیاں دینے والے عناصر کے تناظر میں مداخلت کریں۔












لائیو ٹی وی