پاکستان اور بھارت کی ’دوستی‘ ختم ہونے کے بعد واپسی کی دوڑ، سرحد پر سخت جانچ پڑتال
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں خرابی دونوں ممالک کے درمیان مرکزی سرحدی کراسنگ پر بھی محسوس کی جا سکتی ہے، دونوں اطراف کے فوجیوں نے روایتی مصافحہ ترک کر دیا اور ’فرینڈشپ گیٹ‘ زیادہ تر بند رہا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرحد پر پرچم اتارنے کی تقریب کی تیاریوں کے دوران متعدد شہریوں کو سرحد پار کرکے پاکستان میں واپس جاتے ہوئے دیکھا گیا جو ایک غیر معمولی بات ہے، کراسنگ عام طور پر یہ تقریب شروع ہونے سے پہلے ہی بند ہوجاتی ہے۔
دونوں جانب سے ویزے منسوخ ہونے کے بعد بھارتی اور پاکستانی شہری یکم مئی سے قبل اپنے اپنے ممالک واپس جانے کے لیے اٹاری واہگہ کراسنگ پر پہنچ رہے ہیں۔
گزشتہ 4 روز میں 800 سے زائد بھارتی پاکستان چھوڑ چکے ہیں، جب کہ بھارت سے تقریبا 700 پاکستانی وطن واپس آچکے ہیں۔
صرف اتوار کے روز 236 پاکستانی وطن واپس آئے، جب کہ 115 بھارتی اپنے وطن واپس گئے۔
گنجائش کے پیش نظر دونوں اطراف کے حکام نے لوگوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت دی ہے، بعض صورتوں میں تقریب شروع ہونے سے چند لمحے قبل بھی دروازے بند کر دیے گئے۔
رینجرز اور بھارتی سیکیورٹی فورسز ایک دوسرے کے شہریوں کو امیگریشن کی اجازت دینے سے قبل ان کی دستاویزات کی مکمل جانچ پڑتال کر رہی تھیں۔
تاہم بھارت سے آنے والے زائرین کو میڈیا سے بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حملے کے بعد لوگوں میں کشیدگی واضح ہے اور سرحد کے دونوں جانب واقع پویلین میں بیٹھے لوگ اپنے اپنے ممالک کے ساتھ وفاداری اور حمایت کا اظہار کرنے پہنچ رہے ہیں۔
ملی نغموں اور نعروں کی گونج کے درمیان ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں مصروف، پاکستانی زائرین پویلین میں جاری تعمیراتی کام کے باوجود جگہ کی کمی سے پریشان ہوئے۔
ان میں سے زیادہ تر کے لیے تقریب میں موجود ہونے کا تجربہ ہی سب سے اہم تھا۔
پرچم اتارنے کی تقریب ہر شام غروب آفتاب سے ٹھیک پہلے واہگہ اٹاری پر منعقد کی جاتی ہے، یہ پاکستان کی پنجاب رینجرز اور بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس مشترکہ طور پر انجام دیتی ہیں۔
اس مشق میں فوجیوں کے درمیان ہم آہنگ اسٹومپس، ہائی ککس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور اس کا اختتام پرچموں کو اتارنے اور فوجیوں کے درمیان ہاتھ ملانے کے ساتھ ہوتا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت نے پہلگام فائرنگ کے واقعے کے بعد تعلقات میں کمی کی ہے، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی ہے اور تجارت معطل کردی ہے۔
پہلگام میں دہشت گردی کے بعد بھارت کی جانب سے خونریزی اور پاکستان کی جانب سے اسی انداز میں بدلہ دینے کے اعلان کے بعد واہگہ تقریب میں موجود عوام میں جوش و خروش دیکھا گیا۔
سکندر سلطان نامی شہری نے کہا کہ آج میں پریڈ دیکھنے آیا ہوں، خاص طور پر ہمارے فوجیوں کے جذبے کو دیکھنے یہاں موجود ہوں، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ نہ صرف فوجیوں کے حوصلے بلند ہیں بلکہ یہاں موجود عوام بھارت کی کسی بھی ممکنہ مہم جوئی کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلح افواج کی حمایت کر رہے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ آنے والے علی اسد نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وہ اس تقریب میں آئے ہیں، کل یہاں آنے والے میرے دوست نے بتایا کہ یہ تقریب معمول کے مطابق چل رہی ہے بلکہ زیادہ جوش و خروش ہے، میں پہلے بھی یہاں آچکا ہوں لیکن آج میں نے ساتھی مہمانوں کی پرجوش شمولیت کی وجہ سے اس سے زیادہ لطف اٹھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے اور جنگی ذہنیت سے باہر آنا چاہیے، دونوں ممالک کے درمیان مسائل کے حل کے لیے پاکستان سے بات کرنی چاہیے اور یہی واحد قابل عمل حل ہے۔
سرحد کے دوسری طرف بھارتی بھی اتنے ہی پرجوش تھے، امرتسر سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ سمرجیت سنگھ نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’یہ آپ کو جذبے اور حب الوطنی کے فخر سے بھر دیتا ہے۔‘
کالج سے اپنے دوستوں کے ساتھ آئے سمرجیت سنگھ نے کہا کہ ’ہر طرف ایسے لوگ ہیں، جو مختلف لباس میں نظر آرہے ہیں، لیکن ایک ہی وقت میں ہمارے ملک اور فوجیوں کے لیے خوشیاں منا رہے ہیں، اور چیخ رہے ہیں۔‘
جنوبی ریاست کیرالہ کے شہر کوزی کوڈ سے تعلق رکھنے والے 57 سالہ کے ٹی رمیش نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ یہ تقریب بھی قابل قدر تھی، ہمارے لوگوں میں جذبے کی کوئی کمی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ہونے والے حملے کے بارے میں ’غصہ‘ دیکھا ہے، جس سے بھی میں نے بات کی، ہمارے ہوٹل کے عملے سے لے کر ٹیکسی ڈرائیور اور یہاں کے دیگر سیاحوں تک، سب ہی غصے میں ہیں۔
انہوں نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ہم جنگ پسند نہیں کرتے، لیکن اس بار ہمیں انہیں سبق سکھانا ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریب میں دونوں اطراف سے کچھ غیر ملکی بھی موجود تھے۔