خطے میں کشیدگی میں کمی کیلئے ایران کے کردار کا خیرمقدم کرتے ہیں، وزیر خارجہ
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے ایرانی ہم منصب عباس عراقچی کے ہمراہ گفتگو میں کہا کہ خطے میں کشیدگی میں کمی کے لیے تہران کے کردار کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق پاک-بھارت کشیدگی پر ایران کی ثالثی کی کوششوں کے سلسلے میں ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچے۔
دفترخارجہ میں وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے ایرانی ہم منصب کا پرتپاک استقبال کیا، وہ دورہ پاکستان کے بعد بھارت کا دورہ بھی کریں گے۔
دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان دفتر خارجہ میں اہم ملاقات ہوئی، جس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ دورہ پاکستان میں اسحٰق ڈار سے ملاقات مفید رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ میری پاکستانی ہم منصب سے 3 بنیادی نکات پر بات ہوئی، خطے کی صورتحال اور پاک بھارت تعلقات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
اس موقع پر اسحٰق ڈار نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ سے موجود صورتحال پر بات ہوئی اور انہیں پہلگام واقعے پر تفصیلی بریفنگ دی، جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کا پہلگام واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات خوش آئند ہیں۔
اس سے قبل، روس نے بھارت کو پاکستان سے کشیدگی روکنے کے لیے مذاکرات کا مشورہ دیا تھا۔
روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر سے ٹیلیفونک رابطہ کیا تھا، دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلگام واقعے کے بعد پاک بھارت کشیدہ صورت حال پر گفتگو کی گئی تھی۔
روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے بھارت کو پیغام دیا تھا کہ وہ جنگ کے بجائے پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر تنازع کا حل نکالنے کے لیے اقدامات کرے۔
خیال رہے کہ چین اور ترکیہ بھی خطے کی کشیدہ صورت حال میں کمی کے لیے پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرچکے ہیں۔
علاوہ ازیں، یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کاجا کلاس، سوئٹزرلینڈ اور یونان کے وزرائے خارجہ نے بھی کشیدگی میں کمی کے لیے دونوں ملکوں پر بات چیت کی اہمیت پر زور دیا۔
واضح رہے کہ پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت نے بے جا الزام تراشی اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور سفارتی عملے کو 30 اپریل 2025 تک بھارت چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔
پاکستان نے پہلگام حملے کو ’فالس فلیگ‘ آپریشن قرار دیتے ہوئے جوابی اقدامات کے تحت بھارتی سفارتی عملے کو بھی 30 افراد تک محدود کر دیا گیا تھا اور واہگہ بارڈر بند کردیا تھا۔
بعد ازاں، وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ اس حملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں اور پاکستان اس سلسلے میں تعاون کے لیے تیار ہے، تاہم بھارت کی جانب سے امن کے لیے اقدامات کے بجائے روایتی ہٹ دھرمی کا سلسلہ برقرار ہے۔













لائیو ٹی وی