اسرائیل کا غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ
اسرائیل فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کے خلاف ایک وسیع تر فوجی حملے کے دوران غزہ پٹی پر مکمل قبضہ کر کے امداد کی نگرانی خود سنبھال سکتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ بات پیر کو اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی سیکیورٹی کابینہ کی منظوری کے بعد حکام نے بتائی۔
ایک اسرائیلی دفاعی عہدیدار نے بتایا کہ یہ کارروائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورے مکمل ہونے سے پہلے شروع نہیں کی جائے گی۔
کئی ہفتوں سے حماس کے ساتھ جنگ بندی پر ناکام کوششوں کے بعد یہ فیصلہ اس خطرے کو اجاگر کرتا ہے کہ جنگ غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتی ہے، جبکہ اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے اور اندرون ملک عوامی حمایت کم ہو رہی ہے۔
ایک سرکاری ترجمان نے آن لائن صحافیوں کو بتایا کہ غزہ میں حملے بڑھانے کے لیے ریزرو فوجیوں کو طلب کیا جا رہا ہے، تاہم اس کا مقصد غزہ پر قبضہ نہیں ہے۔
اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے کان کی ایک رپورٹ نے معاملے سے باخبر حکام کے حوالے سے بتایا کہ نیا منصوبہ بتدریج عمل میں لایا جائے گا اور اس میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں، جس کا آغاز غزہ کے ایک مخصوص علاقے سے ہو گا۔
اسرائیلی فوج پہلے ہی غزہ پٹی کے تقریباً ایک تہائی علاقے پر قبضہ کر چکی ہے، جہاں آبادی کو بے دخل کر کے وہاں نگرانی کے ٹاور اور چوکیاں قائم کی گئی ہیں، جنہیں اسرائیل نے ’سیکیورٹی زون‘ قرار دیا، مگر نیا منصوبہ اس سے بھی زیادہ جگہ پر قبضے کا ہے۔
ایک اسرائیلی سرکاری عہدیدار نے کہا کہ نئی منظور شدہ کارروائی کے تحت پورے غزہ پر قبضہ کیا جائے گا، شہری آبادی کو جنوب کی جانب دھکیلا جائے گا اور انسانی امداد کو حماس کے ہاتھوں میں جانے سے روکا جائے گا۔
دفاعی عہدیدار نے بتایا کہ جب کارروائی شروع ہو گی تو اب تک بین الاقوامی امدادی تنظیمیں اور اقوام متحدہ جو امداد تقسیم کر رہی ہیں، اس ذمہ داری کو اب نجی کمپنیوں کو سونپا جائے گا اور جنوبی شہر رفح میں امداد تقسیم کی جائے گی۔
دفاعی حکام کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں قبضہ کیے گئے سیکیورٹی زونز کو برقرار رکھے گا کیونکہ وہ اسرائیلی کمیونٹیز کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ہفتے کے دورے کے دوران جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے ایک موقع موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ نہ ہوا، تو ’آپریشن گیڈین چیریٹس‘ سے شروع کیا جائے گا اور اپنے تمام مقاصد حاصل کرنے تک یہ جاری رہے گا۔
حماس کے عہدیدار محمود مرداوی نے ان باتوں کو ’دباؤ اور بلیک میلنگ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی معاہدہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک مکمل جنگ بندی، غزہ سے مکمل انخلا، غزہ کی تعمیر نو، اور دونوں جانب سے تمام قیدیوں کی رہائی شامل نہ ہو۔
واضح رہے کہ آج غزہ کے شہری دفاع کے مطابق اس کے عملے نے غزہ شہر کے الکرمہ علاقے میں الروموز ٹاور میں 3 اپارٹمنٹس پر اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے 15 افراد کی لاشیں نکال لی تھیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق سول ڈیفنس نے بتایا کہ اس حملے میں 10 افراد زخمی ہوئے تھے۔
شہری دفاع نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ بیت لاہیہ کے علاقے السلطان میں العطار خاندان کے گھر پر ہونے والے حملے میں 4 افراد شہید اور 5 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔