• KHI: Fajr 4:21am Sunrise 5:46am
  • LHR: Fajr 3:30am Sunrise 5:04am
  • ISB: Fajr 3:27am Sunrise 5:04am
  • KHI: Fajr 4:21am Sunrise 5:46am
  • LHR: Fajr 3:30am Sunrise 5:04am
  • ISB: Fajr 3:27am Sunrise 5:04am

’بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کا مودی کے جنگی جنون کی حمایت کرنا تشویش ناک ہے‘

شائع May 9, 2025

ماضی کی طرح برصغیر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تیزی سے جنگ کی جانب بڑھتی کشیدگی نے تمام سیاسی عناصر کو اپنے اختلافات بھلا کر ’قومی یکجہتی‘ کے نام پر متحد ہونے کی ترغیب دی ہے۔ اس کی سب سے اہم مثال بھارت کی دو بڑی بائیں بازو کی جماعتوں، کمیونسٹ پارٹی انڈیا (سی پی آئی) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) کی جانب سے 7 مئی کے حملے کے بعد بھارتی حملے کی حمایت میں جاری کردہ بیانات ہیں۔

دونوں جماعتوں نے مودی حکومت کے بیانیے کی حمایت کی جس کے مطابق پاکستان ’دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم‘ کررہا ہے اور 22 اپریل کے پہلگام حملے کے ذمہ دار ’انفرااسٹرکچر‘ (درحقیقت شہریوں) کو نشانہ بنانا حکومت کا درست اقدام تھا۔ ان بیانات میں بھارت کی ریاستی پالیسیز پر سوالات نہیں اٹھائے گئے اور جنگ سے بچنے کے لیے سفارتی حل تلاش کرنے کی ضرورت کا بھی مختصر سا ذکر کیا گیا۔

کانگریس سمیت دیگر بھارتی اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت کا بیانیہ اپنایا ہے۔ لیکن پارلیمانی کمیونسٹ جماعتیں جن کی ریاستی قوم پرستی کو چیلنج کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے اور جو اصولی طور پر جنگ کی مخالفت کرتی ہیں، وہ بھی اب مودی حکومت کی ڈگر پر چل پڑی ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ سی پی آئی اور سی پی آئی ایم دونوں اکتوبر 2023ء کے صہیونی جنگی جرائم کی حمایت کرنے پر بھارتی حکومت کی سخت ناقد رہی ہیں۔ انہوں نے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ بھارت فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی تاریخی پالیسی کو دوبارہ اپنائیں۔ انہوں نے غالب نظریے کی پیروی سے انکار کیا جو تنازع کی تاریخ کو رد کرتا ہے اور حقائق کو نظرانداز کرکے حماس کو ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دیتا ہے۔

اگرچہ جب بات کشمیریوں کے حق خودارادیت کی آتی ہے تو بھارت کا بایاں بازو، حکومت پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالتا لیکن وہ متدد مواقع پر یہ اعتراف کرچکی ہیں کہ کشمیر میں عسکریت پسندی صرف ’بیرونی مداخلت‘ سے نہیں بلکہ اس کی جڑیں عام کشمیریوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ لیکن پاکستان کے ساتھ بڑھتے تنازع میں حکمران جماعتوں کا ساتھ دے کر سی پی آئی اور سی پی آئی ایم اپنے ہی سیاسی عقائد کے خلاف جارہی ہیں۔

یہ ایک بڑا معاملہ ہے بالخصوص جب پاکستان کے نسبتاً چھوٹے اور مشکلات سے دوچار بائیں بازو کی نظر سے دیکھیں تو یہ معمولی بات نہیں۔ ہمارے یہاں ریاست کی جارحیت کو چیلنج کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور ایسی آوازوں کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری اور آن لائن میڈیا میں پروپیگنڈا کے باوجود بائیں بازو کے ترقی پسندوں نے اپنے اصول ترک نہیں کیے ہیں۔

صرف بھارت میں ہی ایسا نہیں کہ جہاں جنگ کی مخالفت کرنے والا بائیں بازو پنپنا تو کیا، بقا کی جدوجہد کر رہا ہے۔ ہندوتوا واحد انتہا پسند نظریہ نہیں ہے جس نے ’جمہوری‘ اداروں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ ہم سب جس ماحول میں رہ رہے ہیں وہاں زینوفوبک دائیں بازو کا غلبہ بڑھ رہا ہے جو فوجی-صنعتی میڈیا اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ اثر ہے۔ لیکن یہی وہ وجہ ہے کہ مقبول اکثریت کی رائے جو بالخصوص انصاف، امن اور مساوات کے خلاف جاتی ہوں، قبول کرنا بائیں بازو کے عقائد کے بالکل منافی ہے۔

سی پی آئی ایم کو 2011ء میں مغربی بنگال میں اپنی تاریخی شکست سے سبق سیکھنا چاہیے جو کبھی ان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ بھارت کی سب سے بڑی ریاستوں میں سے ایک میں تین دہائیوں تک حکمرانی کرنے والی اس جماعت کا زوال 2007ء میں نندی گرام میں خصوصی برآمدی زون قائم کرنے کے لیے ہزاروں کسانوں کو بےدخل کرنے کے فیصلے سے ہوا۔ کاشتکار سی پی آئی ایم کی سیاست کی بنیاد تھے لیکن نیو لبرل گلوبلائزیشن کے زیرِ اثر آکر، پارٹی نے اپنے اہم سماجی طبقے سے منہ موڑ لیا اور یوں اس نے اپنے ہی موت کے وارنٹ پر دستخط کر دیے۔

سی پی آئی ایم دو دہائیوں میں مغربی بنگال میں اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن کو دوبارہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے حالانکہ وہ کیرالہ میں حکومتی طاقت حاصل کررہی ہے۔ پاکستان میں بائیں بازو کے سوشلسٹ اس وقت ریاستی اقدار سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو دوسری جانب بھارت میں پارلیمانی کمیونزم اب بھی ایک تحریک کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن مودی کے جنگی جنون کی گرم جوشی سے حمایت نے سی پی آئی اور سی پی آئی ایم کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔

تادمِ تحریر بھارت نے کشیدگی میں اضافہ کرتے ہوئے پاکستان کے اہم شہروں میں ڈرونز حملے کیے جس نے عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا ہے جبکہ اس نوعیت کے حملے نے پاکستان کے سیاسی و فکری دھارے میں جنگ کے خواہش مند افراد کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ ڈرونز اسرائیل سے درآمد کیے گئے تھے جو کہ ہندوتوا اور صہیونیت کے درمیان بڑھتے گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتا ہے۔ یقیناً یہ وہ گٹھ جوڑ ہے جسے بھارت کے ترقی پسندوں کو چیلنج کرنا چاہیے۔

برصغیر اور دیگر خطوں کے بائیں بازو کے افراد کو اپنی حکومت کی دیکھا دیکھی ’دہشتگردی‘ کے لفظ کا استعمال روکنا ہوگا کیونکہ ایسا کرکے وہ جبر کی اُس طویل تاریخ کو نظر انداز کردیتے ہیں جو ہمارے خطے اور دنیا میں تنازعات کی وضاحت کرتی ہے۔ جنگی بخار اور غلط معلومات کے دور میں اس طرح کی سوچ بہت ضروری ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عاصم سجاد اختر

لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 18 مئی 2025
کارٹون : 17 مئی 2025