بھارت کی سفارتی اور جنگی محاذ پر ناکامی: ’مودی ہے تو سب ممکن ہے‘
سال 2019ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے الیکشن کے لیے ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کا نعرہ دیا تھا۔ یہ محض نعرہ نہیں بلکہ بی جے پی کی سیاسی حکمتِ عملی کا مکمل نقشہ ہے۔ 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے بی جے پی نے نریندر مودی کو ایک طاقتور لیڈر اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس سیاسی بیانیے میں بھارت کی ترقی اور عالمی رہنما بننے کے سفر کا آغاز ہی 2014ء میں مودی کے برسرِ اقتدار آنے سے ہوتا ہے۔
اس بیانیے کے مطابق مودی محض سیاسی مدبر نہیں بلکہ طلسماتی طاقت رکھنے والی ماوارئی ہستی ہیں جو ہر مسئلے کا حل جانتے ہیں اور ان ہی کے دم سے بھارت بڑی عالمی طاقت بن چکا ہے۔ 2024ء میں تو نریندر مودی نے انتخابات سے قبل ایک انٹرویو میں خود ہی یہ کہہ دیا تھا، ’میں کنوینس (قائل) ہوچکا ہوں کہ پرماتما نے مجھے بھیجا ہے‘۔
سیاست ہو یا خارجہ پالیسی، نریندرمودی کی پارٹی ان کے ہر اقدام کو ان کے اسی ماورائی امیج کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اس امیج میں رنگ بھرنے کے لیے بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سمیت بھارت میں ہندوتوا کی حامی سیاسی و غیر سیاسی قوتیں جن معاملات کو استعمال کرتی ہیں ان میں کم از کم تین بنیادی اہداف طے شدہ ہوتے ہیں: پاکستان، کشمیر اور بھارتی مسلمان۔
پہلگام میں بھارتی سیاحوں پر حملے کے بعد مودی حکومت اور اس کے پروردہ میڈیا نے انہیں اہداف پر نشانہ سادھا لیکن آپریشن ’سندور‘ کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس بار نشانہ چوک گیا ہے۔
آپریشن سندور کو بھارت میں کئی دفاعی تجزیہ کار، خطے میں سیکیورٹی سے متعلقہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھارت کے پیراڈائم شفٹ کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ بی جے پی کو نظریاتی اور سیاسی کمک دینے والی منظم قوت آر ایس ایس نے تو اس کارروائی کو ایک نئے نظریے کے طور پر پیش کیا۔
اتوار کو آر ایس ایس کے ترجمان ہفت روزہ ’دی آرگنائز‘ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ آپریشن سندور کی صورت میں بھارت نے واضح کردیا ہے کہ وہ ’سرحد پار‘ سے کرائے جانے والے کسی بھی حملے کی صورت میں ماضی کے برخلاف اب سفارتی محاذ پر اپنے حق میں فضا بنانے، ثبوت پیش کرنے اور پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے بجائے ’ایکٹیو ڈیٹرنس‘ کے تحت خود کارروائی کرے گا۔ پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان کی پیش کش کے باوجود اس واقعے کی تحقیقات کروانے یا ثبوت فراہم کرنے کے بجائے مدعی، منصف اور جلاد کا کردار ادا کرکے اسی نظریے پر عمل کیا۔
آرگنائزر کے اداریے میں کہا گیا کہ اس نظریے کے مطابق بھارت نے اس بار دنیا کی جانب سے ’فریقین کے لیے تحمل‘ جیسی اپیلوں کو بھی شور و غل سے زیادہ اہمیت نہیں دی اور واضح کردیا ہے کہ وہ ’دہشت گردی کے خلاف‘ اپنی کسی کارروائی کے لیے مغرب سے ’اجازت‘ ملنے کا انتظار نہیں کرے گا بلکہ اس سے اپنے اندرونی معاملے کے طور پر نمٹے گا۔ لیکن آپریشن سندور کے نتائج بھارت کی اس حکمت عملی اور منشا کے برخلاف رہے۔
اول تو بھارت نے ایک ایسے موقع پر امریکی صدر کی جانب سے جنگ بندی کی پیش کش کو قبول کیا جب وہ پاکستان پر مسلسل اپنی برتری کا دعوے دار تھا۔ بی جے پی نے آپریشن سندور کو مودی کی شخصیت بنانے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ اپنے طرزِ عمل کے مطابق اس مہم کا آغاز بھی کردیا تھا کہ ماضی میں کانگریس کی حکومت پاکستان کی جانب سے کروائے جانے والے حملوں میں کمزوری کا مظاہرہ کرتی آئی ہے جبکہ مودی نے اس کا بھرپور جواب دیا ہے۔
لیکن امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزارتِ خارجہ کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھرپور کارروائی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کی کوششیں تیز ہوگئی تھیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے سیز فائر کروانے کے اعلان کے بعد جس طرح مودی حکومت نے سیز فائر کو تسلیم کیا اس کے بعد اب خود بھارت میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ اگر اس کارروائی میں بھارت کو برتری حاصل تھی تو مودی نے امریکا کی مداخلت کیوں تسلیم کی؟
مزید یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ جو اس معاملے پر پہلے لاتعلق تھے، انہوں نے نہ صرف جنگ بندی پر مذاکرات کا اعلان کیا بلکہ اتوار کو اپنی ایک اور سوشل میڈیا پوسٹ میں مسئلہ کشمیر کے حل لیے بات چیت میں مدد کی پیش کش بھی کردی۔
اگرچہ مودی حکومت کا کہنا یہ ہے کہ وہ جنگ بندی کے لیے اپنی شرائط پر بات چیت آگے بڑھائیں گے لیکن جنگ بندی کی کوششوں کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر پر کی گئی پیش کش کو مسترد کرنا کتنا آسان ہوگا؟
اس موقع پر صدر ٹرمپ کی پیش کش بھی کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ اس میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ 2019ء میں مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا جیسے تیسرے فریق نے پاک-بھارت تعلقات کے تناظر میں اس مسئلے کو سفارتی کوششوں کا موضوع بنایا ہے۔
دوسری جانب کشمیر پر ٹرمپ کی پیش کش اس لیے بھی مودی کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے کیونکہ وہ تو پاکستان میں حملوں کو ’اندورنی‘ معاملہ بنانے کے زعم میں تھے لیکن پاکستان کی جوابی کارروائی سے پیدا ہونے والی فضا میں انہیں ٹرمپ جیسے ثالث سے ڈیل کرنا ہوگا جو اب صرف جنگ بندی ہی نہیں بلکہ کشمیر کی بات بھی کررہا ہے۔
اس صورت حال کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ پاکستان کے ساتھ چین بھی اس کشیدگی میں ایک مضبوط کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ دفاعی ٹیکنالوجی میں اس کی برتری کا یہ کامیاب مظاہرہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے کہ جب صدر ٹرمپ ٹیرف وار کے ذریعے چین کی پیداواری اور تجارتی قوت کو محدود کرنے کی حکمتِ عملی پر کار بند ہیں۔ چین کے عالمی اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے بھارت کو خطے میں چین کے خلاف امریکا کا سب سے بڑا اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے یوکرین جنگ کے باوجود بھارت کی جانب سے روس سے تیل خریدنے اور تجارتی تعلقات برقرار رکھنے پر یورپی یونین کے تحفظات کو بھی نظر انداز کیا۔
بی جے پی نے 2024ء کی انتخابی مہم کے لیے ایک اشتہار بنایا تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ روس-یوکرین جنگ میں بھارتی طلبہ کو یوکرین سے نکالنے کے لیے مودی نے جنگ رکوا دی تھی۔ اس اشتہار کے اس فقرے کی بہت بَھد بھی اُڑی تھی جب بھارت واپس آنے والی ایک طالبہ اپنے والد سے کہتی ہے کہ ’مودی جی نے وار رکوا دی پاپا‘۔
پاک-بھارت جنگ بندی کے بعد ایک معروف بھارتی یوٹیوب آکاش بینر جی نے اپنے ولاگ میں حکومت پر طنز کرتے ہوئے اس مکالمے کو کچھ یوں بدل دیا کہ ’پاپا نے مودی سے وار رکوا دی۔‘
جنگ بندی کے اعلان کے بعد کارگل جنگ کے دوران بھارت کے آرمی چیف رہنے والے وید پرکاش ملک نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ آئندہ لکھی جانے والی تاریخ ہی اس سوال کا جواب دے گی کہ ہم نے پاکستان کے خلاف کارروائی سے کیا فائدہ حاصل کیا ہے، اگر کیا بھی ہے؟
بی جے پی نے چونکہ آپریشن سندور کو مودی کی سیاسی امیج بنانے کے لیے بے دریغ استعمال کیا، اس لیے جنگ بندی کے بعد اب اپوزیشن کے سوالات میں بھی تندی پیدا ہورہی ہے۔ خود مودی حکومت کے حامی امریکا کو للکارنے اور پاکستان کو سبق سکھانے کے دعوے تو کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس بھی اس بات کا تسلی بخش جواب نہیں ہے کہ دنیا کی پروا نہ کرنے والے مودی آخر ایسے موقع پر ٹرمپ کے سامنے کیوں جھک گئے جب مودی حکومت کے دعووں کے مطابق بھارت اپنے ازلی حریف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والا تھا؟
بھارت میں وہ سیاسی مبصرین جو مودی کے ناقد ہونے کے باوجود آپریشن سندور کے جواز کا دفاع کر رہے تھے اب وہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ اگر پاکستان بھارت کو زیادہ نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوا اور رافیل جیسی جنگی طیارے گرائے جانے کی خبروں میں صداقت نہیں تھی تو مودی حکومت اور فوج تردید کرنے سے کیوں گریز کررہی ہے۔
بھارت اس دعوے کے ساتھ میدان میں اترا تھا کہ وہ پاکستان میں کہیں بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اس کے لیے درکار فوجی صلاحیت میں بھی اسے برتری حاصل ہے۔ لیکن پہلے ہی مرحلے میں پاکستان کی جانب سے بھارتی فضائیہ کے رافیل طیارہ گرنے سے اس دعوے کی قلعی کھل گئی۔
9 مئی کو بھارت کے پاکستان کے مختلف مقامات پر حملوں اور پاکستان کی جوابی کارروائی سے قبل ہی ایشیا ٹائمز کے لیے اپنے مضمون میں امریکی محکمہ خارجہ میں دفاعی پالیسی کے ڈپٹی انڈر سیکریٹری اسٹیفن برین نے چین اور پاکستان کے اشتراک سے تیار کردہ جے 10 جیٹ سے رافیل گرانے کو بھارت کی فضائی جنگ کے مستقبل کے لیے بری خبر قرار دیا تھا۔
10 مئی کو جس طرح پاکستان نے بھارت پر جوابی حملے کیے اور بھارت کی فضائیہ کے ترجمان نے جس طرح رافیل گرنے کی خبروں کی براہ راست تصدیق کرنے سے دامن بچایا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ’بری خبر‘ درست بھی ثابت ہوچکی ہے۔
بھارت کی اپوزیشن اور سیاسی مبصرین اب جنگ کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی بھارت کی پوزیشن پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب 7 مئی کو کشیدگی شروع ہونے کے بعد پاکستان کا ردعمل پوری طرح متوقع تھا اس کے باوجود 9 مئی کو عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے قرض کی قسط منظور کی اور مودی حکومت کچھ نہیں کرسکی۔ اگرچہ بھارت آئی ایم ایف کا بورڈ ممبر نہیں لیکن اس میں شامل امریکا جیسے فیصلہ کن ووٹ رکھنے والے اپنے اتحادی کو بھی اپنا ہم نوا نہیں بنا سکا۔
اس کے علاوہ بی جے پی مودی کو بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا کا بھی بڑا لیڈر بنا کر پیش کرتی ہے۔ لیکن آپریشن سندور کے آغاز کے بعد امریکا اور روس سمیت اس کے اتحادیوں نے براہ راست اس کارروائی کی حمایت نہیں کی بلکہ دونوں ممالک پر کشیدگی کم کرنے کے لیے زور دیا۔ اس کے مقابلے میں چین جیسی عالمی طاقت اور ترکیہ نے کھل کر پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا بلکہ اس میدانِ جنگ میں دونوں ممالک کا پاکستان کے ساتھ دفاعی ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون بھی اہم ترین ثابت ہوا۔
آپریشن سندور کی پریس بریفنگ کے لیے سیکریٹری خارجہ اور فضائیہ کی خاتون افسر کے ساتھ ایک مسلم فوجی افسر صوفیہ قریشی کو سامنے لایا گیا۔ ان بریفنگز میں پاکستان میں مساجد پر حملے پر اٹھائے گئے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ بھارت ایک سیکیولر ملک ہے جہاں ہر مذہب کا احترام کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف بی جے پی اور اس کا پروردہ بھارت کا میڈیا نہ صرف پہلگام میں حملوں کو مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت کا رنگ دینے کے استعمال کر رہا تھا وہیں یہ سب ایک ایسی حکومت کی جانب سے کیا جارہا تھا جس کی سیاسی فکر میں سیکیولرزم ایک گالی سے کم نہیں ہے یہ سب واقعی مودی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
آپریشن سندور سے مودی جی کا عالمی رہنما بننے کا خواب ہی پھیکا نہیں پڑا بلکہ بی جے پی کو داخلی سیاست میں کئی کڑے سوالات کا سامنا ہوگا اور یہ بھی مودی ہی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔