’جب بھارت اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی تعمیل نہیں کررہا تو اس کی رکنیت کیوں برقرار ہے؟‘
اقوامِ متحدہ کا قیام ہمیں جنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے عمل میں آیا تھا اور اس کے دستخط کنندگان نے ’اچھے ہمسائے کے طور پر امن کے ساتھ‘ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا عہد کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں۔
22 اپریل 2025ء کو کشمیر کے علاقے پہلگام میں وادی بیسران کی سیاحت کے لیے آنے والے افراد کو قتل کردیا گیا۔ مرنے والوں میں 24 ہندو، ایک مسیح اور ایک مسلم شخص شامل تھا۔ اپنی جان کی پروا کیے بغیر سید عادل حسین شاہ نے حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اس نے اپنی جان گنوا دی۔ وہ شاید قرآن کریم کی آیت سے متاثر تھا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے، ’اگر تم نے ایک جان (نصف، صرف ایک مسلمان نہیں) کو بچایا تو گویا تم نے پوری انسانیت کو بچایا‘۔ وہ اپنے عقیدے پر ثابت قدم رہتے ہوئے جان سے گیا۔
لیکن کیا اقوامِ متحدہ کے رکن، بھارت نے صدق دل کے ساتھ اپنے عہد کی پاسداری کی؟ ’اراکین اپنے بین الاقوامی تنازعات کو پُرامن طریقے سے اس انداز میں حل کریں گے کہ بین الاقوامی امن و سلامتی اور انصاف‘ خطرے میں نہ پڑے (اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 2)۔ بھارت نے انا کو بین الاقوامی ذمہ داریوں اور عام فہم کی راہ میں رکاوٹ بننے دیا۔ اسے یہ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ حملے کے پیچھے کون تھا۔
پاکستان کا شمار دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہزاروں حملوں میں دسیوں ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ میرے دوست اور ساتھی بھی دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں۔
پلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جس کی سرپرستی ہمارا ہمسایہ ملک کرتا ہے، اس نے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کو مسجد میں نماز کے دوران قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس سے چند سال قبل بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر ترین ججز میں سے ایک، محمد نواز مری کو ہائی کورٹ سے گھر جاتے ہوئے راستے میں قتل کیا گیا۔ 8 اگست 2016ء میں کوئٹہ کے مرکزی اسپتال پر حملے میں 70 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے اکثریت وکلا کی تھی اور تقریباً تمام وکلا سے میری واقفیت تھی۔
سپریم کورٹ نے معاملے کی انکوائری کے لیے ایک کمیشن بنایا اور مجھے یہ ذمہ داری سونپی۔ کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یکم جنوری 2001ء سے 17 اکتوبر 2016ء تک پاکستان میں 17 ہزار 503 دہشتگردانہ حملے ہوئے۔ فی دن حملوں کی اوسط تین تھی۔ تفتیش کاروں کو بیرونی مداخلت کا شبہ تھا۔ تاہم شواہد کے بغیر ہمسایہ ممالک پر ذمہ داری عائد کرنے سے جنگی جنون پیدا ہوتا جبکہ یہ غیرپیشہ ورانہ اور غلط بھی ہوتا۔
اگرچہ پاکستان میں دہشتگردی کم ضرور ہوئی لیکن یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوئی۔ اسی رپورٹ میں ’تجاویز‘ کا ایک حصہ بھی شامل تھا جس کے شروعاتی الفاظ یہ تھے، ’پاکستان میں دہشتگردی (جوکہ مسلسل جاری ہے) کی زد میں آنے والے عوام جواب کے مستحق ہیں۔ جن لوگوں نے پاکستان کے عوام کو مایوس کیا، ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ معاملات ایسے ہی نہیں چل سکتے۔ جب تک اعلیٰ حکام کو محتسب نہیں ٹھہرایا جائے گا تب تک نظام میں حقیقی تبدیلی لانا ممکن نہیں‘۔
بیرونی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنا محاسبہ کرنا پہلا قدم ہونا چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارت میں کوئی بھی ادارہ اتنا دلیر ہے کہ وہ اس نوعیت کا مطالبہ کرسکے؟
قانون کی پاسداری کرنے والے کسی بھی ملک کی عدالتوں کی طرح ہماری عدالتوں میں بھی ملزم تب تک بےگناہ کہلاتا ہے کہ جب تک اس پر لگائے گئے الزامات ثابت نہ ہوجائیں۔ پہلے جرم کی تحقیقات ہوتی ہے، ثبوت جمع کیے جاتے ہیں اور پھر استغاثہ ایک غیر جانبدار ثالث یعنی جج کے سامنے مقدمہ رکھتی ہے۔ تفتیش کاروں، پروسیکیوٹرز اور ججز غور سے شواہد اور جرم کے محرکات کا جائزہ لیتے ہیں۔ کسی کو بھی قصوروار صرف تصور ہی نہیں کرلیا جاتا نہ ہی ججز اپنی ذاتی رائے کو فیصلے پر اثرانداز ہونے دیتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 33 کا تقاضا ہے کہ ’کسی بھی تنازع جس کے جاری رہنے سے بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، اس کے فریقین سب سے پہلے آپس میں بات چیت، انکوائری، ثالثی، مفاہمت، عدالتی تصفیہ، علاقائی ایجنسیز یا اپنی مرضی کے دیگر امن ذرائع سے حل تلاش کریں گے‘۔ بھارت نے یہ نہیں کیا۔
اگر پاکستان تعاون نہ کرتا تو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35 کے تحت ’کسی بھی تنازع یا کسی بھی صورت حال کو سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی کی توجہ دلانے‘ کے لیے کہا جا سکتا تھا۔ چارٹر کے آرٹیکلز 39 سے 46 سلامتی کونسل کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ اصول کی پابندی نہ کرنے والے اراکین کے خلاف کارروائی کرے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی شق 4 ’دھمکی یا طاقت کے استعمال‘ سے منع کرتی ہے۔ اس کے بجائے بھارت نے پہلگام حملے کے فوراً بعد ہی پاکستان کو قصوروار ٹھہرادیا اور اسے سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
اقوامِ متحدہ کا چارٹر یہ بھی کہتا ہے کہ ’باہمی معاہدوں کی شرائط‘ کی تعمیل ضروری ہے۔ پاکستان اور بھارت نے 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ کیا تھا جس کا مقصد دریاؤں کے پانی کے نظام کا مکمل اور تسلی بخش استعمال’ ہے۔ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرو نے بھارت کی جانب سے معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ کسی ایک فریق کی جانب سے معطل یا منسوخ نہیں ہوسکتا۔
یہ معاہدہ تقریباً 65 سال سے برقرار ہے کہ جب تک وزیراعظم نریندر مودی نے اسے ’معطل‘ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ انہوں نے دریاؤں کے پانی کا رخ موڑنے کی بھی دھمکی دی۔ بھارت نے اپنے حملوں میں نیلم-جہلم واٹر سسٹم کو بھی نشانہ بنایا۔ اگر یہ حرکتیں ماحولیات کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں تو انہیں ’ایکوسائڈ‘ یعنی قدرت کے خلاف جرم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رکنیت ہر اس ملک کے لیے ہے جو ’امن پسند ہے اور موجودہ چارٹر کی پابندی کرنے کے لیے راضی ہے‘ (آرٹیکل 4)۔ ان اصولوں کی پیروی کرنا نہ کرنا آپشن نہیں ہے۔ اگر کوئی ملک اقوامِ متحدہ کی شرائط پر عمل نہیں کرتا تو یہ ناقابلِ فہم ہے کہ وہ ملک اقوام متحدہ کا رکن ہی آخر کیوں برقرار رہتا ہے۔ نہ بین الاقوامی قانون نہ اخلاقیات یہ اجازت دیتی ہیں کہ ذمہ داریوں اور وعدوں کی پاسداری کیے بغیر کوئی ملک اقوامِ متحدہ کے رکن کی حیثیت سے فائدے نہ اٹھائے۔
گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر نریندر مودی نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے اور انتخابات جیتنے کا بہترین طریقہ سیکھا جوکہ دہشتگردی اور نفرت کا پرچار ہے۔ ان کی مقبولیت نفرت پر منحصر ہے جسے انہوں نے آئندہ بہار کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں دوبارہ استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک کشمیر میں بہایا گیا 26 جانوں کا خون ایک مقصد کے حصول کے لیے تھا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔