’جنگ کے حالات میں پاکستانیوں نے مزاح کو جذباتی ڈھال کے طور پر استعمال کیا‘

شائع May 17, 2025

ہنگامہ خیز ہفتے کے بعد ایک سب سے واضح سبق جو ہم نے سیکھا وہ یہ تھا کہ مختلف اقوام کا جنگی حالات سے نمٹنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ 22 اپریل کے پہلگام واقعے کے بعد سے بھارت جہاں طبلِ جنگ بجا رہا تھا، وہیں پاکستان میں قہقہوں کی گونج تھی۔

سوشل میڈیا جہاں اب ہم آدھی جنگیں لڑتے ہیں، پاکستان نے ایسی میمز اور ریلز بنائیں جو بھارت کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کا بھی مذاق اُڑا رہی تھیں۔ میری پسندیدہ ریل وہ تھی کہ جس میں کراچی کی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ بمباری کی شدت سے کراچی کی سڑکیں تباہ حال اور ٹوٹ چکی ہیں۔ ایک اور صارف نے درخواست کی کہ حملہ اس وقت کرنا کہ جب گھر میں گیس آرہی ہو ورنہ 9:15 کے بعد ہم دراندازوں کو چائے نہیں پلا پائیں گے۔ ایک خاتون انسٹاگرام انفلوئنسر کو فکر لاحق تھی کہ جنگ کے لیے کون سے کپڑے موزوں رہیں گے۔ کسی نے عید کی خوشیاں تاج محل میں منانے کی پیش گوئی کی تو کوئی ڈی ایچ اے فیز 13 نئی دہلی میں پلاٹ خریدنے کی بات کررہا تھا۔ مجموعی طور پر اُن دنوں تمسخر قومی مزاج بن چکا تھا۔

یہ سب نمایاں طور پر سرحد پار صورت حال سے مختلف تھا۔ بھارت میں لوگ ایسے جذبات ظاہر کررہے تھے جو عموماً جنگ کی وجہ سے انسانی فطرت ظاہر کرتی ہے جیسے غصہ، مایوسی اور مستقبل کا خوف۔ پاکستانیوں نے بھارتیوں کے مقابلے میں جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا، اس نے بھارتیوں کو بھی حیران کیا۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ایک ملک اتنے سنگین اور تکلیف دہ وقت سے ڈیل کرنے کے لیے کیسے طنز و مزاح کا سہارا لے سکتا ہے؟

لوگوں نے اس سوال پر جو جوابات دیے وہ ظاہر کرتے ہیں بھارتی عوام ہمیں سمجھتے نہیں ہیں۔ بھارتیوں نے اپنے ملک میں امن اور سلامتی کے طویل دور دیکھے ہیں، ان کے برعکس پاکستانیوں نے رواں صدی کے بیشتر حصوں میں تنازعات کو سامنا کیا ہے۔

جب 2001ء میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان کو نیٹو سپلائی کا راستہ بنا کر تنازع میں دھکیلا گیا۔ 2021ء میں امریکیوں کے اچانک جلدبازی میں انخلا کے وقت تک پاکستان مسلسل دہشتگردانہ حملوں میں زد میں تھا۔ قبائلی علاقے نو گو ایریاز بن چکے تھے جبکہ پاک فوج ان کے خلاف آپریشنز میں مصروف تھی۔ دہشتگردی کے حملوں میں جہاں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے، وہیں ان واقعات نے عوام کو سالوں تک روزانہ کی بنیاد پر ناقابلِ تصور سطح تک تناؤ برداشت کرنے پر مجبور کیا۔

تاہم 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے انتہائی غیر انسانی دہشتگردانہ حملوں نے قوم کو جذباتی طور پر کرچی کرچی کیا۔ اس حملے کے بعد جس طرح ننھی ننھی لاشیں اسکول کے باہر نکالی گئیں، وہ منظر قوم کی اجتماعی یادوں پر نقش ہوچکا ہے۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے برعکس پاکستانی عادی ہیں کیونکہ وہ کئی دنوں اور سالوں سے حالتِ جنگ میں ہیں۔

انہوں نے جنگ سے نمٹنے کے ؒلیے حکمت عملی بھی تیار کرلی ہیں۔ یہ تحریر لکھتےہوئے میری برطانیہ میں ماہرِ نفسیات ڈاکٹر یوسف زکریا سے گفتگو ہوئی۔ ان کے مطابق پاکستانیوں کا ردعمل جنگ اور بقا کی جدوجہد کے حوالے سے گہری کہانی بیان کرتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ انتہائی تناؤ یا بےیقینی کی صورت حال کے دوران مزاح کا استعمال ’ بے بسی ظاہر کرنے’ کی ایک شکل ہے جوکہ قومی سطح پر ہے۔

انہوں نے وضاحت کی، ’یہ ایسی صورت حال ہے کہ جب لوگ بار بار تناؤ کا سامنا کرتے ہیں اور وہ اسے قابو میں کرنے کے حوالے سے خود کو بےبس محسوس کرتے ہیں اور کچھ دیر بعد انہیں ادراک ہوجاتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرلیں وہ حالات نہیں بدل سکتے۔ پھر انتہائی خطرناک ماحول میں بھی وہ خوف کی صورت میں ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ وہ ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں کوئی پروا نہیں ہے بلکہ وہ یہ سیکھ چکے ہوتے ہیں کہ شعوری یا لاشعوری طور پر ان کے ردعمل سے نتیجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی‘۔

مزاح پاکستانیوں کے لیے بقا کی حکمت عملی ہے۔ دہائیوں سے جاری سیاسی و عسکری عدم استحکام، دہشت گرد حملوں کا مسلسل خطرہ، اسکول اور کام کی غیر متوقع بندش، ہر طرح کی ہلچل نے یہ قومی شعور پیدا کیا ہے کہ انفرادی سطح پر فکر کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی نتائج پر کوئی اثر پڑے گا۔ جیسا کہ ڈاکٹر یوسف زکریا نے کہا، ’مزاح، قوم پرستی، یہاں تک کہ بے حسی، بے بسی کے خلاف جذباتی ڈھال کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ مزاح سے لوگوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ صورت حال کو قابو میں کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے لیکن وہ اپنے احساسات پر مکمل اختیار رکھتے ہیں‘۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کے لیے جنگ کا ٹراما ایک جیسا ہوتا ہے۔ سرحد کے قریب بسنے والے لوگ دھماکے، شیلنگ اور ڈرونز کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں جبکہ شہروں میں رہنے والوں کے لیے ایسا نہیں۔

نیشنل سینٹر فار پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ان یو ایس کے مطالعے میں سامنے آیا کہ طویل جنگ کا سامنا کرنے والے عام شہریوں کو بہت سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ بمباری، بے گھر ہونے، خوراک اور پانی تک محدود رسائی اور یہاں تک کہ جنسی تشدد کا سامنا کرنے کا خوف بھی ہوتا ہے۔ ان تمام خطرات نے بلاشبہ ان تمام لوگوں کو متاثر کیا ہے جو متاثرہ علاقوں بالخصوص لائن آف کنٹرول کے قریب رہتے ہیں۔

ہر پاکستانی جانتا ہے ان کا پریشان ہونا جنگ کے نتائج پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ جنگ کی قیادت، حملوں اور اس کے بعد آنے والی نتائج سے نمٹنے کے لیے مزاح کا استعمال کرتے ہوئے، پاکستانی اپنے جذبات پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔ اگرچہ وہ کنٹرول نہیں کر سکتے تھے کہ بھارتی فوج کیا کرے گی یا ان کی اپنی فوج کیا رد عمل ظاہر کرے گی لیکن پھر بھی وہ اس بات کا فیصلہ کرسکتے تھےکہ وہ حالات کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔

مشکل وقت سے گزر کر لوگ اکثر مضبوط ہوجاتے ہیں۔ پاکستانی اس لیے مضبوط ہیں کیونکہ انہوں نے جنگیں، وبائی امراض، فوجی بغاوتیں اور وہ وہ کچھ دیکھا ہے جو کوئی تصور نہیں کرسکتا۔گزشتہ ہفتے ہمارا قومی مزاج مایوسی نہیں بلکہ فتح یابی کا جشن تھا جو دنیا کو بتاتا ہے کہ پاکستانیوں نے جو کچھ برداشت کیا ہے اس کے بعد وہ مضبوط ہوچکے ہیں۔

یہ ایسے لوگ ہیں جو ہنستے ہیں پھر چاہے وہ اپنے آپ پر ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ جانتے ہیں ان کے رونے سے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 17 جون 2025
کارٹون : 16 جون 2025