بھارت کی ناکام چال اور عمران خان کے ’احمق مداح‘
بھارت اب کبھی بھی پہلے جیسا نہیں رہے گا یا وہ کم از کم ویسا نہیں رہے گا جیسا کہ 2014ء میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بن گیا تھا۔
7 اور 10 مئی کو پاک فضائیہ اور پاک فوج نے کافی پُراعتماد انداز میں بھارتی افواج کو زیر کیا۔ بھارت کے جدید ترین رافیل طیارے جن کی تعریفوں کے خوب پُل باندھے گئے تھے، 7 مئی کو جب ان کا ملبہ ملا تو بھارتی حکومت کا لہجہ اچانک دھیما ہوگیا۔ یہی وہ لمحہ تھا کہ جب انہیں احساس ہوا کہ 7 مئی کے تصادم کا نتیجہ وہ نہیں آیا جس کی توقع بھارت نے کی تھی۔
بھارت نے یہ جنگ اس لیے چھیڑی کیونکہ اسے گمان تھا کہ ’غیرمقبول فوج‘ اور غیرمقبول حکومت کے ساتھ پاکستان کا معاشرہ انتہائی تقسیم کا شکار ہے۔ بھارتی اسٹریٹجک ماہرین کو یقین تھا کہ پاکستان اپنے ہمسایے کے وار کو برداشت نہیں کرپائے گا کہ جس کی حکومت ’بہت زیادہ مقبول‘ ہے جبکہ یہ اعلیٰ جنگی ہتھیاروں سے بھی لیس ہے۔
اس تنازعے کے دوران اگر استعاری طور پر بات کی جائے تو 7 مئی کو بھارت کی آنکھ پر گھونسا مارا گیا جبکہ 10 مئی کو پاکستان نے بھارت کی ناک توڑ دی۔ اس نے فوری طور پر امریکا سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا جو سب سے پہلے سی این این کے معروف صحافی نک رابنسن نے رپورٹ کیا۔
پاکستان نے بھارتی جارحیت کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور چند اہم عسکری و سفارتی فتوحات حاصل کیں۔ دوسری جانب بھارت نے جو جوا کھیلا، اس میں وہ خاطر خواہ طور پر کچھ حاصل نہیں کرپایا۔ یہ دیکھنا دلچسپ تھا کہ بھارت کا بدنام زمانہ، بلند و بانگ جھوٹ بولنے والا، حقائق سے لاعلم میڈیا کس طرح معاملے کو گھماتا رہا کیونکہ 10 مئی کی شام تک وہ گڑبڑایا ہوا لگ رہا تھا۔
اس تنازعے کا سب سے عجیب و غریب حصہ تو وہ تھا جو 8 اور 9 مئی کی درمیانی شب بھارتی ٹی وی چینلز پر سب نے دیکھا۔ گھنٹوں تک بھارتی میڈیا ’رپورٹ‘ کرتا رہا کہ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں پر بھارت کا قبضہ ہوچکا ہے اور پاکستانی حکومت بھی گر چکی ہے جبکہ پاکستان کے آرمی چیف حراست میں ہیں۔ پاکستانیوں کی جانب سے اپنے ملک میں حالات معمول کے مطابق ہونے کی ویڈیوز پوسٹ کرنے کے باوجود (پاکستانی تو خوب ہنس رہے تھے) جعلی خبروں کا سلسلہ حیرت انگیز طور پر بڑھتا جارہا تھا۔ بھارت کے علاوہ کسی بھی بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے ’بھارت کی زبردست فتح‘ کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔
ایک دن ہوگا (اور ہونا بھی چاہیے) کہ ماہرینِ عمرانیات (بلکہ ماہرینِ نفسیات کو بھی) میڈیا کے اس رویے کا قریب سے مطالعہ کریں گے۔ میری ابتدائی فہم یہی تھی کہ یہ اجتماعی طور پر خیالی دنیا بنانے کا معاملہ تھا جو اس لیے زور پکڑتا چلا گیا کیونکہ زیادہ سے زیادہ بھارتی اس کے بھنور میں دھنستے چلے گئے اور وہ اس میں اس قدر دھنس گئے کہ ان کا حقیقت سے رابطہ ہی ختم ہوگیا۔
بھارتی میڈیا کا پاگل پن، جوش اور جنون ان چند گھنٹوں میں جس قدر تھا، اس نے بیشتر بھارتیوں بالخصوص متوسط طبقے کے بھارتی شہریوں جن کی بڑی تعداد نے مودی کو ووٹ دیا تھا، سب سے عقل و دانش سے سوچنے کی تمام صلاحیتوں سے انہیں محروم کردیا تھا۔ اس رات بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر قابلِ نفرت ہمسایے کی مکمل تباہی و بربادی کے اجتماعی تصور کو جعلی خبروں کی صورت میں بیان کیا گیا۔ یہ جلد ہی ایک افراتفری، جذباتی معاملے میں تبدیل ہوگیا تھا جو خبروں سے زیادہ کسی کی تباہی کی خواہش زیادہ لگی۔
ان خبروں پر یقین کرنے والوں پر سے صبح جب خمار اترا تو وہ حقیقت سے روشناس ہوئے۔ پاکستان تو اپنی جگہ قائم تھا جیسا کہ ہمیشہ سے قائم رہا ہے۔ بھارتی زعم کو مزید چوٹ تب لگی کہ جب 10 مئی کو پاکستان نے میزائل حملوں سے بھرپور جوابی کارروائی کی۔ اس وقت تک بھارتی میڈیا اور ان کے عوام مکمل طور پر تھک چکے تھے۔ اور مودی حکومت کا بھی یہی حال تھا کیونکہ انہوں نے جو چال چلی تھی وہ مکمل طور پر ناکام ہوچکی تھی۔
بلاشبہ پاکستانی معاشرہ تقسیم شدہ تھا اور ہے۔ لیکن یہ قابلِ ذکر ہے کہ کس طرح ملک کے مختلف سماجی، اقتصادی اور سیاسی طبقات تقریباً فوری طور پر بھارتی جارحیت کے خلاف ملک کی مسلح افواج اور حکومت کی حمایت کے لیے اکٹھے ہوگئے۔ بھارت کو اس کی توقع نہیں تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورت حال کے بارے میں ان کا نظریہ ملک کے اُن معاشی اور سیاسی پریشانیوں کے مبالغہ آمیز تصورات سے تشکیل پایا ہے جن کا آغاز 2022ء میں ہوا تھا۔ یہ واضح ہے کہ یہ تاثر سوشل میڈیا پر بھارتیوں کے لیے بڑے پیمانے پر پاکستانیوں کی نفسیات سے کھیلنے کا ذریعہ بنا جہاں انہوں نے پاکستانی بن کر مختلف جعلی اکاؤنٹس سے ’خود‘ کو ٹرول کیا جبکہ پاکستان میں اُن ’احمقوں‘ نے بھارت کے جعلی اکاؤنٹس سے پھیلنے والے بیانیے کی تائید کی جو افواج کے خلاف کسی بھی بیانیے کی حمایت کرتے ہیں۔
یہاں میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ تمام بیانیے غلط ہیں کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ لیکن ان میں مبالغہ آرائی بہت زیادہ ہے جس نے لوگوں کے عقائد اور جذبات کو تبدیل کیا ہے۔ یہ عقائد ریاستی اداروں اور سیاست کے بارے میں ہیں۔ اگرچہ ادارے اور ملکی سیاست وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے ہیں لیکن کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے کہ ماضی میں تھے یعنی کچھ بھی نہیں بدلا۔ اس طرح کی سوچ بائیں اور دائیں دونوں بازوؤں میں پائی جاتی ہے۔

تاہم بہت سے لوگ جن کے عقائد مذکورہ بالا تھے، انہوں نے کھل کر بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کے ردعمل کی حمایت کی۔ کچھ لوگ ہچکچا رہے تھے لیکن انہوں نے اپنی تنقید کم ضرور کردی تھی۔ اس طبقے کے زیادہ تر لوگوں نے ’امن‘ کی بات کی۔ اس میں واقعی میں کوئی برائی نہیں لیکن بات یہ ہے کہ یہ مطالبے جنگ کی مخالفت یا امن کے پرچار میں نکلنے والے مارچ کی عکاسی کرتے ہیں جو یورپ اور امریکا میں دیکھے گئے۔ لیکن یہ ذہن میں رکھا جائے کہ وہ مارچ اس لیے مختلف اور قابلِ فہم تھے کیونکہ یہ اپنی ہی حکومت کے لیے خلاف نکالے گئے تھے کہ جنہوں نے دیگر ممالک پر حملہ اور ان پر قبضہ کیا۔ جیسے ویتنام، افغانستان، عراق اور جیسے فلسطین!
لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ اگر ویتنام کی افواج امریکا پر حملہ کر رہی ہوتیں تو امریکا میں امن پسند ’امن قائم کرنے‘ کا مطالبہ کررہے ہوتے؟ کیا عراق میں امریکا کا سامنا کرنے والی عراقی افواج کے سپاہی امریکی کی محبت میں سرشار تھے؟ ظاہر ہے جنگ کسی صورت بھی جہنم سے کم نہیں۔ لیکن وہ پاکستان نہیں تھا جس نے جنگ کی شروعات کی۔
ملکی خودمختاری کو ایک ایسے ہمسایے سے خطرہ تھا جس نے کبھی بھی پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے اپنے مذموم عزم کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان نہیں بلکہ جنگ کا آغاز کرنے والے بھارت کے امن پسندوں کی جانب سے امن کی کال دی جانی چاہیے تھی۔ کسی کو پاکستان سے امید نہیں کرنی چاہیے تھی کہ جارحیت کے جواب میں وہ بندوق اٹھانے کے بجائے گٹار تھام کر امن کے نغمے گاتا۔
شاید سب سے زیادہ احمق عمران خان کے مداح تھے۔ کچھ نے نام نہاد ’اسٹیبلشمنٹ مخالف‘ لفاظی جاری رکھی جبکہ کچھ نے غیر حقیقی انداز میں یہ مؤقف پیش کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کی جیت کسی نہ کسی طرح عمران خان کی جیل سے رہائی پر منحصر ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی۔
جب بھارت نے پاکستان پر دوسری بار حملہ کیا تو پاکستان تحریک انصاف کے ایکس اکاؤنٹ سے پوسٹ کیے جانے والے بیان کو ہی ملاحظہ فرمائیں، ’پاکستان اس وقت حملے کی زد میں ہے۔ عمران خان کو فوری طور پر رہا کیا جائے!‘ کیا کرنے کے لیے؟ ریلی نکالنے کے لیے؟ دھرنا دینے کے لیے؟ کس لیے رہا کیا جائے؟
اس کے باوجود بھارتی حکومت کا پاکستان کی موجودہ حالت سے متعلق تجزیہ انتہائی یک طرفہ تھا۔ وہ مبالغہ آرائی پر مبنی خیالات پر یقین کرگئے۔ لیکن اس بار جب انہوں نے پاکستان کے خلاف اپنی جارحیت کا مظاہرہ کیا تو پاکستان کےجواب نے صورت حال بدل دی جس نے انہیں واضح طور پر حیران کیا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔