بھارتی سپریم کورٹ نے آپریشن سندور سے متعلق تبصرے پر گرفتار مسلمان پروفیسر کی ضمانت منظور کرلی

شائع May 21, 2025
— فوٹو: فائل
— فوٹو: فائل

بھارتی سپریم کورٹ نے آپریشن سندور سے متعلق آن لائن بیانات دینے پر گرفتار کیے گئے مسلمان پروفیسر کی ضمانت منظور کرلی، تاہم ان کے خلاف تحقیقات جاری رہیں گی۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اشوکا یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر علی خان محمودآباد کو ان کی جانب سے گزشتہ اتوار کو کی گئی ایک فیس بک پوسٹ پر گرفتار کیا گیا تھا جس میں انہوں نے بنا سوچے سمجھے جنگ کی وکالت کرنے والوں پر تنقید کی تھی۔

اپنی فیس بک پوسٹ میں انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’ دو خواتین فوجی افسران کی جانب سے بریفنگ دینا ایک اہم علامتی عمل ہے، لیکن اگر یہ علامتیں زمینی حقیقت میں نہ ڈھلیں تو پھر یہ صرف منافقت رہ جاتی ہے’۔

پروفیسر علی خان محمود آباد نے بعدازاں کہا تھا کہ ان کے تبصروں کو ’غلط سمجھا گیا تھا ’ اور یہ کہ انہوں نے ’ آزادیِ اظہار اور فکر کا اپنا بنیادی حق‘ کا استعمال کیا تھا۔

پروفیسر علی خان محمود آباد پر بھارت کے ضابطہ فوجداری کی متعدد دفعات کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے، جن میں ملک کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنا اور عورت کی عصمت کی توہین کے ارادے سے الفاظ یا اشاروں کا استعمال شامل ہے۔

پروفیسر علی خان محمود آباد کو ضمانت دیتے ہوئے، بھارت کی سپریم کورٹ نے کہا کہ انہیں ’ پیچیدہ الفاظ کے استعمال’ سے گریز کرنا چاہیے تھا جو ’ افراد کو تکلیف پہنچا سکتے ہوں’ اور اس کے بجائے ’ اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے سادہ الفاظ’ استعمال کرنے چاہیے تھے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے پروفیسر علی خان کے تبصروں کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی پولیس ٹیم تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی۔

پروفیسر علی خان محمود آباد کو پاک-بھارت جنگ اور اس سوشل میڈیا پوسٹ پر تبصرہ کرنے سے روکا گیا جس کے نتیجے میں ان کی گرفتاری ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت نے گزشتہ ہفتے چار روز تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد ٍجنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان تازہ ترین کشیدگی 22 اپریل کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 26 افراد کے ہلاک ہونے کے بعد سامنے آئی تھی، جب بھارت نے بغیر کسی تحقیقات کے پاکستان پر ’ دہشت گردوں کی پشت پناہی’ کا الزام عائد کیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کیا تھا۔

بعد ازاں، 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب نئی دہلی نے پاکستان پر فضائی حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے 5 طیارے مار گرائے تھے۔

10 مئی کو پاک فوج کی جانب سے آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کیا گیا، جس میں بھارت کے 26 ملٹری اہداف کو نشانہ بنایا گیا، بالآخر 10 مئی کو شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پروفیسر علی خان محمود آبادکی گرفتاری کو ’ شرمناک ’ قرار دیا اور حکام پر ’ کسی بھی تنقیدی نقطہ نظر رکھنے والے کو نشانہ بنانے کے لیے قانون کے مسلسل غلط استعمال’ کرنے کا الزام لگایا۔

پروفیسر علی خان محمود آباد کی 8 مئی کی پوسٹ میں دو خاتون فوجی افسران، جن میں مسلمان افسر صوفیہ قریشی بھی شامل تھیں، کا حوالہ دیا گیا تھا، جنہوں نے جنگ بندی سے قبل فوجی پریس بریفنگز دی تھیں اور ایک متحدہ اور ترقی پسند بھارت کی تصویر پیش کرنے پر ان کی تعریف کی گئی تھی۔

پروفیسر علی خان محمود آباد نے کہا تھا کہ وہ ’ خوش’ ہیں کہ ہندو قوم پرست مبصرین خواتین کی حمایت کر رہے ہیں، لیکن وہ (ہندو قوم پرست) اتنے ہی پرزور انداز میں یہ مطالبہ بھی کرسکتے تھے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی نفرت انگیز مہم کا نشانہ بننے والوں کی حفاظت کی جائے۔

اس پوسٹ کے فوراً بعد پروفیسر علی خان محمود آباد کو ہریانہ ریاست میں حکومتی خواتین کے حقوق کمیشن نے طلب کرلیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 13 جون 2025
کارٹون : 12 جون 2025