امریکا-ایران جوہری مذاکرات کا پانچواں دور ختم
ایرانی اور امریکا کے درمیان اٹلی کے دارالحکومت روم میں جوہری مذاکرات کا پانچواں دور اختتام پذیر ہو گیا، جس میں ’کچھ پیش رفت ہوئی‘۔
عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسیدی نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ ’ایران-امریکا مذاکرات کا پانچواں دور آج روم میں اختتام پذیر ہوا، جس میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے، تاہم یہ حتمی نہیں ہے، مزید کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ’باقی مسائل‘ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائیں گے ۔
قبل ازیں، ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمٰعیل باقی نے کہا تھا کہ چیف امریکی مذاکرات کار اسٹیو وٹکوف پرواز شیڈول ہونے کی وجہ سے مذاکرات چھوڑ کر چلے گئے، عمان کے دارالحکومت مسقط میں مذاکرات کا چوتھا دور افزودگی پر جھگڑے کے ساتھ ختم ہوا تھا۔
اسٹیو وٹکوف نے کہا تھا کہ واشنگٹن ’ایک فیصد بھی افزودگی کی اجازت نہیں دے سکتا‘، تاہم اس مؤقف کو تہران نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت اپنے حقوق کا حوالہ دیتے ہوئے ریڈ لائن قرار دیا تھا۔
آج مذاکرات سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ امریکا کے ساتھ ’بنیادی اختلافات‘ موجود ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ تہران اپنے جوہری مقامات کے مزید معائنہ کرانے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر امریکا ایران کو یورینیم کی افزودگی سے روکنا چاہتا ہے تو ہم کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔
یہ بات چیت اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے ، ویانا میں قائم بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے جون کے اجلاس اور 2015 کے معاہدے کی اکتوبر میں میعاد ختم ہونے سے پہلے ہوئی۔
تہران میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے پیچھے ہٹنے کا امکان نہیں ہے۔
جوہری معاملے پر سابق مشیر محمد مرانڈی نے بتایا کہ یہ بہت آسان ہے، اگر امریکا ایران سے جوہری افزودگی روکنے کی توقع کرتا ہے، تو کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا ۔
ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کا کہنا ہے کہ ملک کی جوہری صنعت میں 17 ہزار افراد ملازمت کرتے ہیں، یہ تعداد دوسرے ممالک کی طرح ہے، جہاں یورینیم کو سول استعمال کے لیے افزودہ کیا جاتا ہے ۔
ترجمان بہروز کمالونڈی نے کہا کہ نیدرلینڈز، بیلجیم، جنوبی کوریا، برازیل اور جاپان جوہری ہتھیار رکھے بغیر یورینیم کی افزودگی کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ رز امریکی میڈیا میں اسرائیل کی جانب سے حملے کی تیاری کی خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا تو ایران اس کے لیے امریکا کو ذمے دار تصور کرے گا۔