غزہ: اسرائیلی حملے میں خاتون ڈاکٹر کے 10 میں سے 9 بچے شہید
غزہ میں اسرائیلی حملے میں خاتون ڈاکٹر کے 10 میں سے 9 بچے شہید جبکہ ان کے شوہر اور ایک بیٹا زخمی ہوگیا، حملے کے وقت ڈاکٹر علا النجار نصر ہسپتال میں فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھی، اسرائیلی حملوں میں گزشتہ روز 52 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ 4 سالہ بچہ بھوک سے جاں بحق ہوگیا۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے صحت حکام نے بتایا ہے کہ ایک اسرائیلی حملے میں خان یونس کی ایک ڈاکٹر کے تقریباً پورے خاندان کو اُس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھیں۔
ہسپتال کے شعبہ اطفال کے سربراہ ڈاکٹر احمد الفرّا کے مطابق جمعے کے روز یہ حملہ جنوبی شہر کے نصر اسپتال کی ماہر اطفال ڈاکٹر علا النجار کے گھر پر ہوا، جس سے گھر میں آگ لگ گئی اور ان کے 10 میں سے 9 بچے شہید ہو گئے، ۔
غزہ کے حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق جاں بحق بچوں کی عمریں 7 ماہ سے لے کر 12 سال تک تھیں، جن میں سے 2 اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، ان بچوں کے نام سدار، لقمان، سدین، ریوال، رُسلان، جُبران، ایو، راکان اور یحییٰ بتائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر احمد الفرّا نے الجزیرہ کو بتایا کہ ڈاکٹر علا النجار کے شوہر اس حملے میں شدید زخمی ہوئے ہیں، ان کے سینے اور سر پر شدید چوٹیں آئی ہیں، جن میں کھوپڑی کا فریکچر بھی شامل ہے، اور وہ اس وقت نصر اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ (آئی سی یو) میں زیرِ علاج ہیں۔
اس جوڑے کا واحد زندہ بچ جانے والا بچہ 11 سالہ آدم بھی شدید زخمی ہے۔ ڈاکٹر الفرّا کے مطابق وہ اس وقت ’درمیانی نوعیت کے آئی سی یو ڈیپارٹمنٹ میں اپنی والدہ کے ساتھ‘ ہے۔
ڈاکٹر الفرّا نے حملے کے اثرات کے بارے میں کہا کہ ’یہ ناقابلِ یقین ہے، آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ڈاکٹر علا النجار پر یہ خبر سن کر کیا گزر رہی ہو گی، لیکن اب تک وہ اپنے بیٹے اور شوہر کے قریب رہنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ وہ زندہ بچ سکیں‘۔
انہوں نے دنیا بھر کے لوگوں سے اپیل کی کہ ’وہ انسانیت کے صحیح رخ پر کھڑے ہوں اور اس بمباری کے خلاف آواز بلند کریں‘۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ بچے، ان کی کوئی آواز نہیں ہے، ان کی ماں صدمے میں ہے‘۔
انہوں نے کہاکہ ’براہِ کرم، میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ اس دنیا میں اُس ماں کی آواز بنیں‘۔
اقوامِ متحدہ کی فلسطینی علاقوں کے لیے خصوصی نمائندہ فرانچسکا البانیزے نے النجار خاندان کے گھر پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ایک سفاکانہ طرزِ عمل اور محصور غزہ میں فلسطینیوں کو درپیش نسل کشی کے ایک نئے مرحلے کا حصہ قرار دیا۔
حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت جان بوجھ کر طبی عملے، عام شہریوں اور ان کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ ان کا حوصلہ توڑا جا سکے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے ایک ایسی عمارت کو نشانہ بنایا جہاں مشتبہ جنگجو اس کی افواج کے قریب سے کارروائی کر رہے تھے، اور یہ علاقہ ان افراد کے لیے مخصوص تھا جنہیں پہلے ہی وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔ فوج نے مزید کہا کہ غیر متعلقہ شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کے دعوے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
اسرائیل نے پیر کو غزہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر خان یونس سے جبری انخلا کے احکامات جاری کیے تھے اور ایک بڑے حملے کی وارننگ دی تھی، اس علاقے میں روزانہ شدید اور مہلک بمباری جاری ہے۔
النجار خاندان کے بچے ان درجنوں افراد میں شامل تھے جو جمعہ اور ہفتے کو اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے۔
دریں اثنا، الجزیرہ نے وفا نیوز ایجنسی کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ گزشتہ روز غزہ بھر میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 52 فلسطینی شہید ہو گئے۔
ایک حالیہ حملے میں، شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ النزلہ میں اسرائیلی افواج نے ایک گھر پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں کم از کم ایک شخص جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے، الجزیرہ کے مطابق۔
کئی افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب جنوبی شہر خان یونس میں شدید فائرنگ اور توپ خانے کے حملوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
وزارتِ صحت کے مطابق، اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 53,901 ہو چکی ہے جبکہ 122,593 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
دریں اثنا، غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ اسرائیلی محاصرے کے باعث خوراک، پانی اور دیگر امداد کی بندش کے نتیجے میں غزہ شہر میں ایک 4 سالہ بچہ محمد یاسین، بھوک سے شہید ہوگیا۔
محمود بصل نے کہا کہ یہ پہلا بچہ نہیں ہے جو غزہ میں بھوک کے باعث جان سے گیا ہے، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر خوراک اور پانی کو غزہ کے عوام تک پہنچنے کی اجازت نہ دی گئی، تو ہم ان بچوں کی مزید ہلاکتوں کے گواہ بنیں گے، ہم مزید اموات دیکھیں گے۔
بصل نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اس اذیت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔