پاکستان کا مودی کے دھمکی آمیز بیان پر شدید ردعمل، بھارت سے عالمی قوانین کے احترام کا مطالبہ
پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی گجرات میں کی گئی ’اشتعال انگیز تقریر‘ کی شدید مذمت کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی نظم و ضبط کے بنیادی اصولوں کی طرف لوٹے۔
بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں نریندر مودی نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کے مندرجات پر سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کا مطالعہ کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز ریاست گجرات کے شہر چندی گڑھ میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نئی نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ ملک کو کس طرح برباد کیا گیا، 1960 میں کیے گئے سندھ طاس معاہدے کی باریکی میں جائیں گے تو آپ چونک جائیں گے کہ اس میں یہاں تک طے ہوا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے دریاؤں پر جو ڈیم بنے ہیں، ان کی صفائی نہیں کی جائے گی، صفائی کے لیے ڈیم کے نچلے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، 60 سال تک یہ گیٹ نہیں کھولے گئے، جن ڈیموں میں 100 فیصد پانی بھرنا چاہیے تھا ان کی استعداد کم ہوکر 2، 3 فیصد رہ گئی۔
انہوں نے کہا کہ کیا میرے ملک کے لوگوں کا پانی پر حق نہیں ہے؟ کیا انہیں پانی نہیں ملنا چاہیے؟ مودی نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا برملا اعتراف کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی کہ ابھی میں نے زیادہ کچھ کیا نہیں ہے، ابھی صرف کہا ہے اور ان کا پسینہ چھوٹ رہا ہے، ہم نے ڈیم تھوڑے کھول کر صفائی شروع کی ہے اور کوڑا کرکٹ نکال رہے ہیں، اتنے سے وہاں سیلاب آجاتا ہے۔
پاکستان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ریمارکس کو ’غیر متوقع‘ قرار دیتے ہوئے اپنے بیان میں بھارت پر زور دیا کہ وہ تاریخ کو ازسرنو ترتیب دینے کے منصوبے کو ترک کرے۔
دفتر خارجہ نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت کے رویے کو بین الاقوامی اصولوں سے ایک تشویشناک انحراف قرار دیا اور پاکستان اور بھارت کے علاقائی طرز عمل اور عالمی عزائم کے درمیان واضح فرق کو اجاگر کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی احترام کی متلاشی قیادت کو سب سے پہلے خود احتسابی کرنی چاہیے اور دوسروں کو دھمکیاں دینے سے قبل اپنے ضمیر کا محاسبہ کرنا چاہیے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پاکستان بھارت پر زور دیتا ہے کہ وہ بین الاقوامی نظام کے بنیادی اصولوں کی طرف لوٹے، جن میں دوسروں کی خودمختاری کے حقوق، معاہدوں کی پاسداری اور قول و فعل میں صبر و تحمل شامل ہیں‘۔
دفتر خارجہ نے خبردار کیا کہ جنگجی جنون انتخابی مہم میں تالیاں تو بجوا سکتا ہے، لیکن یہ طویل المدتی امن اور استحکام کے لیے نقصان دہ ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کے نوجوان، جو قوم پرستی کے اس جنون کے اولین شکار ہوتے ہیں، بہتر کریں گے کہ وہ خوف کی سیاست کو رد کریں اور عزت، عقل اور علاقائی تعاون پر مبنی مستقبل کی جانب قدم بڑھائیں۔“
اکثر انتہاپسند قوم پرستی کا پہلا شکار بننے والے بھارتی نوجوانوں کو چاہیے کہ خوف کی سیاست کو مسترد کردیں، بہتر ہو گا کہ وہ وقار اور علاقائی تعاون پر مبنی مستقبل کے لیے کام کریں۔
بیان میں واضح کیا گیا کہ ایسے اقدامات مقامی سطح پر وقتی طور پر سیاسی فائدہ تو دے سکتے ہیں، لیکن وہ بین الاقوامی جانچ پڑتال کا سامنا نہیں کر سکتے اور نہ ہی بھارت کو ایک ذمہ دار علاقائی طاقت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کے نظریاتی پیروکاروں نے ہجوم کے ہاتھوں تشدد کو معمول بنا دیا ہے، نفرت انگیز مہمات کو فروغ دیا ہے اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کا تعلق بیرون ملک قتل و غارت اور غیر ملکی سازشوں سے بھی جوڑا گیا ہے، بھارت غیر ملکی عوام اور علاقوں پر قابض ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس کا ریکارڈ منظم جبر پر مبنی ہے، یہ انتہائی ستم ظریفی ہے کہ اب ایسا ملک خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔