امریکی اپیل کورٹ نے ٹرمپ کے محصولات بحال کردیے، مارکیٹ میں غیریقینی صورتحال
امریکی تجارتی کورٹ کی جانب سے زیادہ تر ٹرمپ محصولات کو معطل کیے جانے کے اگلے ہی روز امریکی اپیل کورٹ نے امریکی صدر کے عائد کردہ وسیع تجارتی محصولات کو بحال کردیا جس کے نتیجے میں وال اسٹریٹ کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ تجارتی کورٹ کے فیصلے سے مارکیٹس کو وقتی سہارا ملا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گزشتہ مہینوں میں غیر یقینی امریکی تجارتی پالیسی نے عالمی مالیاتی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، 2 اپریل کو ’یومِ آزادی‘ کے عنوان سے صدر ٹرمپ کی جانب سے اچانک ٹیرف کے اعلانات نے مارکیٹس کو ہلا دیا تھا لیکن بعد میں ان پر عمل درآمد کو بار بار موخر یا تبدیل کیا گیا۔
2 اپریل کے بعد سے ایس اینڈ پی 500 انڈیکس میں 4.1 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ یورپی اسٹاکس میں 2 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، سونے کی قیمت میں 5.9 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ڈالر انڈیکس 4.4 فیصد کم ہوا ہے، 10 سالہ امریکی بانڈز کی شرح منافع 23 بیسس پوائنٹس بڑھ کر 4.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم اپیل کورٹ کے فیصلے پر اسٹاک مارکیٹس نے خاص ردِعمل ظاہر نہیں کیا کیونکہ بدھ کو عدالت کی جانب سے ٹیرف کو معطل کرنے کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پہلے ہی کچھ حد تک کمزور ہو چکی تھی۔
مارکیٹیں اس بات کے عادی ہو چکی ہیں کہ صدر بھاری ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور پھر جلد ہی انہیں مؤخر کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ٹی اے سی او (ٹرمپ آلویز چکنز آؤٹ) یعنی ٹرمپ ہمیشہ پیچھے ہٹتا ہے، کی اصطلاح سامنے آئی ہے جو کہ ’فنانشل ٹائمز‘ نے وضع کی ہے۔
بدھ کو ایک صحافی نے ٹرمپ سے ٹی اے سی او (ٹاکو) کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اسے بدبودار سوال قرار دیا اور کہا کہ ’اسے مذاکرات کہتے ہیں‘۔
بدھ کو ایک وفاقی عدالت نے ٹرمپ کی زیادہ تر تجارتی محصولات کو غیر قانونی قرار دے کر معطل کر دیا تھا، جسے ٹرمپ کی تجارتی حکمت عملی کے لیے ایک بڑا دھچکا تصور کیا گیا تھا، عدالت نے قرار دیا تھا کہ ٹرمپ نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کش دیسائی نے عدالت کے فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’غیرمنتخب ججز کا یہ کام نہیں کہ وہ قومی ایمرجنسی سے نمٹنے کا صحیح طریقہ طے کریں‘۔ ٹرمپ انتظامیہ نے فوری طور پر اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی تھی۔