سب سے زیادہ نمازیں ڈراما سیٹوں پر پڑھی جاتی ہیں، مریم نفیس
اداکارہ مریم نفیس نے کہا ہے کہ معاشرے میں اب بھی خصوصی طور پر شوبز انڈسٹری میں کام کرنے والی خواتین کو پسند نہیں کیا جاتا، ان کے کام کو غلط سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ نمازیں ڈراما سیٹوں پر پڑھی جاتی ہیں۔
مریم نفیس حال ہی میں ’سماء ٹی وی‘ کے مارننگ شو میں شریک ہوئیں، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر بات کی۔
پروگرام کے دوران بات کرتے ہوئے مریم نفیس نے ’بے بی‘ بمپ کے ساتھ اپنے فوٹوشوٹ پر بھی بات کی اور کہا کہ انہیں ان پر کی جانے والی تنقید سمجھ نہیں آئی۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی خاتون حمل سے ہوں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب وہ باہر نہ نکلے اور گھر تک ہی محدود رہے لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اداکارہ کے مطابق بچہ پیدا کرنا کوئی غلط کام نہیں، وہ بہت ہی اچھا اور معجزاتی کام ہے، پھر کیوں حمل کو چھپانے کی باتیں کی جاتی ہیں؟
مریم نفیس نے بتایا کہ ان کی جانب سے ’بے بی‘ بمپ کے فوٹوشوٹ کی تصاویر کو بہت زیادہ خواتین نے سراہا اور ان سے سوالات بھی کیے، ان سے رہنمائی بھی لی، تاہم کچھ افراد نے ان پر تنقید بھی کی۔
ایک سوال کے جواب میں مریم نفیس کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ پدرشاہانہ معاشرہ ہے، یہاں مردوں کی چلتی اور سنی جاتی ہے، مرد کسی خاتون کی نہیں سننا چاہتے۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ پڑھی لکھی خاتون کو برداشت نہیں کیا جاتا، اسی طرح جو خاتون کسی بھی مسئلے پر اپنی رائے دیتی ہے تو اس کی رائے نہیں سنی جاتی بلکہ اس پر طنز کیے جاتے ہیں کہ یہ بہت رائے دیتی رہتی ہیں، ہر وقت اپنی بات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
ان کے مطابق معاشرے کے مرد جتنے بھی روشن خیال ہوں، پھر بھی وہ رائے دینی والی خاتون کو پسند نہیں کرتے، مردانہ معاشرہ ہے، خواتین کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔
انہوں نے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ خصوصی طور پر شوبز میں کام کرنے والی خواتین کو پسند نہیں کیا جاتا، ان سے متعلق سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ وہ کس طرح کام کر رہی ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ کس طرح کا کام سے کیا مطلب ہے؟ شوبز میں ہر طرح کا پس منظر رکھنے والی لڑکیاں موجود ہیں جو اچھی تعلیم یافتہ بھی ہیں لیکن اس باوجود ان کے کام پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
مریم نفیس نے اسی دوران کہا کہ سب سے زیادہ نمازیں ڈراما سیٹوں پر پڑھی جاتی ہیں، ہم سب لوگ مل کر کھانا کھاتے ہیں، کوئی کسی کو چھوٹا یا بڑا نہیں سمجھتا، کوئی کسی کے کام کو کمتر نہیں کہتا لیکن اس باوجود ہم پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ کس طرح کام کر رہے ہیں؟