حافظ آباد گینگ ریپ کیس میں نیا موڑ، ملزم بھگانے پر 2 پولیس اہلکار گرفتار
پنجاب کے ضلع حافظ آباد گینگ ریپ کیس کی تحقیقات میں نیا موڑ آیا ہے، واقعے کے چند روز بعد رشوت لے کر ملزم کو بھگانے کے الزام میں 2 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔
واضح رہے کہ 3 جون کو حافظ آباد میں جوڑے کو اغوا کرنے اور شوہر کے سامنے بیوی کا گینگ ریپ کرنے کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) شوہر کے سامنے بیوی کا گینگ ریپ کرنے کے الزام میں 4 میں سے 2 ریپسٹ کے نام عبوری قومی شناختی فہرست (پی این آئی ایل) میں ڈال دیے کیونکہ رپورٹس مل رہی تھیں کہ ملزمان بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش رہے ہیں۔
حافظ آباد ضلع کے کاسوکی تھانے میں درج کرائی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق حمید پورہ پولیس کے انچارج اے ایس آئی کاشف محمود کو واقعہ منظرم عام پر آنے سے قبل ہی گینگ ریپ کا پتا چل گیا تھا اور انہوں نے ملزم لائق مقصود کو گرفتار کر لیا تھا۔
اے ایس آئی نے پولیس کے اعلیٰ افسران کو ملزم کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ واقعہ کے بارے میں بھی آگاہ نہیں کیا، اسی دوران دوسرے ملزم اکرام کے کزن اور افسر کے سینئر ساتھی انسپکٹر منیب لیاقت نے لائق کی رہائی کے لیے اے ایس آئی سے رابطہ کیا، دونوں پولیس اہلکاروں نے ایک لاکھ 40 ہزار روپے میں ڈیل کی، یہ رقم ایس آئی اے کو ادا کی گئی، جس نے ملزم کی گرفتاری کو ریکارڈ پر لائے بغیر اسے رہا کر دیا۔
جب ملزمان نے اس گھناؤنے فعل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی، جو وائرل ہو گئی، اس کے بعد 3 جون کو حافظ آباد کی ضلعی پولیس نے واقعے کا نوٹس لیا اور 8 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا، جن میں چار نامزد ملزمان (اکرام، لائق، چاند اور خاور) مانگٹ اوچا گاؤں کے ہیں۔
دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ مشتبہ افراد میں سے ایک کو پہلے حراست میں لیا گیا تھا اور بعد میں اے ایس آئی نے ڈیل کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا تھا، جو بددیانتی، غفلت اور بدعنوانی کی سنگین مثال ہے۔
کاسوکی پولیس اسٹیشن نے اب دونوں پولیس اہلکاروں کے خلاف پولیس آرڈر 2002 کی دفعہ 155 سی کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔
یاد رہے کہ 5 جون کو پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں تھانہ کسوکی کی حدود میں شوہر کے سامنے بیوی کا گینگ ریپ کرنے کے مقدمے میں مطلوب مرکزی ملزم خاور مبینہ پولیس مقابلے کے دوران اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔
عبوری قومی شناختی فہرست
گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کے سفر یا فرار کو روکنے کے لیے ایف آئی اے کی جانب سے عبوری قومی شناختی فہرست کو برقرار رکھا جاتا ہے۔
ایف آئی اے نے ایئرپورٹس اور بین الاقوامی سرحدوں کا انتظام کرنے والے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ وہ مشتبہ افراد کی نقل و حرکت کو چیک کریں اور مشتبہ افراد کی نشاندہی پر انہیں الرٹ کریں۔
پی این آئی ایل پر رکھے گئے مبینہ ریپسٹ کی شناخت چاند اور اکرام مانگٹ کے نام سے ہوئی ہے۔
ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ 2 ملزمان کے نام پی این آئی ایل پر اس وقت ڈالے گئے، جب حافظ آباد کے ڈی پی او نے آئی جی سے درخواست کی کہ وہ ایف آئی اے کو فوری طور پر اس کی ہدایت کریں۔
انہوں نے کہا کہ ڈی پی او کی جانب سے کارروائی کا آغاز جلد ہی کیا گیا تھا جب اس کیس میں مطلوب 2 دیگر اہم ملزمان بشمول لائق اور ایم خاور مبینہ طور پر ’پولیس مقابلوں‘ میں مارے گئے تھے اور رپورٹس کے مطابق دیگر افراد زیر زمین چلے گئے تھے۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایک ’انکاؤنٹر‘ میں 24 گھنٹے کے اندر خاور مارا گیا تھا، جبکہ لائق مبینہ طور پر جمعرات کی رات دیر گئے مقامی پولیس کے ساتھ ’انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا تھا۔
عہدیدار نے بتایا کہ لائق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گینگ ریپ کا ماسٹر مائنڈ تھا اور اسے اور اس کے ساتھی خاور کو کاسوکی پولیس کی حددود میں قتل کیا گیا تھا۔
ان میں سے خاور پنکچر کی دکان چلاتا تھا جبکہ لائق رکشہ ڈرائیور تھا۔
انہوں نے کہا کہ لائق نے 25 اپریل کو جوڑے کو روکا اور پھر اپنے ساتھیوں کو بلایا تھا۔
ملزمان نے نوجوان لڑکی اور اس کے شوہر کو بلیک میل کیا تھا، اور پھر انہیں مانگٹ کے ایک ویران مقام پر لے گئے تھے، جہاں انہوں نے گینگ ریپ کیا تھا اور پھر میاں، بیوی کو موبائل فون کیمروں کے سامنے وہی حرکت دہرانے پر مجبور کیا تھا۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ ملزمان نے بہت سے ویڈیو کلپس بنائے اور جوڑے کو دھمکی دی کہ وہ پولیس کو گینگ ریپ کی اطلاع دینے پر ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ خوفزدہ جوڑے نے ابتدائی طور پر فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے کی اطلاع پولیس یا اپنے اہل خانہ کو نہیں بتائیں گے۔
تاہم، 2 جون کو حافظ آباد کے ڈی پی او عاطف نذیر کو ان کے موبائل فون پر ویڈیو کلپ کا لنک موصول ہوا اور انہوں نے اسے فوری طور پر اپنے ایس پی کو بھجوایا تاکہ وہ متاثرین کا سراغ لگائیں اور شکایت درج کرانے کے لیے ان سے رابطہ کریں۔
جیسے ہی پولیس اہل خانہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی، متاثرہ لڑکی نے مجرمانہ کارروائی کے لیے جانے سے انکار کردیا۔
بعد ازاں ڈی پی او نے خود جوڑے سے ملاقات کی اور 2گھنٹے تک بات چیت کرکے مقدمہ درج کرنے کے لیے انہیں قائل کرنے میں کامیاب رہے۔
پولیس نے لڑکی کے شوہر کی شکایت پر ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 4 نامعلوم ملزمان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔
واقعے کا پس منظر
یاد رہے کہ 25 اپریل کو حافظ آباد کے علاقے مانگٹ اونچا میں پیش آنے والے واقعے میں خاور عرف اور اس کے ساتھیوں نے ایک شادی شدہ جوڑے کو اغوا کر کے خاتون کا گینگ ریپ کیا تھا۔
منگل کو پولیس نے متاثرہ خاتون کے شوہر کی درخواست پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 148 ، 149، 354 ، 354 اے، 355، 365، 375 اے، 382، 496 اے اور506 بی کے تحت مقدمہ درج کرکے 8 مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شروع کر دیے تھے۔
ایف آئی آر کے مطابق واقعہ 25 اپریل کی شام تقریباً 7 بجے پیش آیا تھا جب شکایت کنندہ اور اس کی بیوی موٹر سائیکل پر سفر کے دوران راستے میں کچھ دیر کے لیے رکے اور خاتونموٹر سائیکل سے اتری تو ایک شخص ان کے قریب آیا، گالیاں دے کر اسے تھپڑ مارا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ کچھ ہی دیر بعد مسلح افراد کا ایک گروہ وہاں پہنچا اور جوڑے کو زبردستی قبرستان کے قریب ایک سنسان جگہ لے گیا، ایف آئی آر میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح جوڑے کو جسمانی تشدد، ریپ اور ڈکیتی کا نشانہ بنایا گیا۔
شکایت کنندہ نے ایف آئی آر میں بتایا کہ ’ہم دونوں کو باندھ دیا گیا اور مجھے زمین پر لٹاکر میرے سامنے بیوی کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا، میں ملزمان کو روکتا ہی رہ گیا‘۔۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان 2 موبائل فون، 2 تولہ سونا اور 2500 روپے نقدی بھی لوٹ کر لے گئے۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ملزمان نے ہمیں اسلحے کے زور پر ایک دوسرے سے جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا اور اس عمل کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کیا‘۔
ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا کہ ’ہم نے واقعہ رپورٹ کرنے میں تاخیر اس لیے کی کیونکہ ملزمان نے دھمکی دی تھی کہ اگر ہم نے قانونی کارروائی کی یا میڈیکل چیک اپ کروایا تو وہ ہمیں قتل کر دیں گے اور ملزمان نے زیادتی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر بھی اپ لوڈ کر دی‘۔
متاثرہ خاتون کے شوہر نے اغوا، زیادتی، جنسی تشدد اور ڈکیتی کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی تھی اور 8 میں سے4 ملزمان کے نام بھی بتائے تھے، درخواست گزار نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزمان کو فوری گرفتار کر کے سزا دی جائے۔
حافظ آباد کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) عاطف نذیر نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھاکہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور انہیں 24 سے 48 گھنٹوں کے اندر گرفتار کر لیا جائے گا۔
دوران زیادتی نہ صرف خاتون کی برہنہ ویڈیوز بنائی گئیں بلکہ انہیں سوشل میڈیا پر وائرل بھی کر دیا گیا، جس کے بعد ملک بھر میں شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا۔
ڈی ایس پی سی سی ڈی اعجاز احمد گجر حافظ آباد کی رپورٹر ڈان کو بتایا کہ ملزم خاور اس دل دہلا دینے والے واقعے کا مرکزی کردار تھا اور اسے گرفتار کرنے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔
واضح رہے کہ اگرچہ ملک میں انسداد زیادتی قوانین موجود ہیں جن کے تحت زیادتی کی سزا سزائے موت یا 10 سے 25 سال قید ہے، لیکن ایسے واقعات بدستور سامنے آ رہے ہیں۔
مارچ میں، پنجاب پولیس نے لاہور میں ایک خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی کے الزام میں 3 ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔
اسی سال کے آغاز میں، پنجاب حکومت نے انسداد زیادتی (تحقیقات و سماعت) ایکٹ 2021 کے تحت درج شدہ جرائم کی تفتیش اور خواتین کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے صوبے بھر میں اسپیشل سیکشوئل آفینسز انویسٹی گیشن یونٹس (ایس ایس او آئی یو ایس) کی تعداد بڑھانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اس حوالے سے صوبے بھر میں 150 مزید یونٹس قائم کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، کیونکہ ایسے کیسز کی بڑی تعداد رپورٹ ہو رہی تھی، پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے سیکریٹری داخلہ نورالامین مینگل کو ہدایت دی تھی کہ یونٹس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور خواتین شکایت کنندگان کی مدد کے لیے تربیت یافتہ افسران تعینات کیے جائیں۔