’خود کو خاموش نہ ہونے دو‘ آصفہ بھٹو کی ثنا یوسف کے قتل کی شدید مذمت

شائع June 10, 2025
آصفہ بھٹو نے کہا کہ کوئی ایپ، کوئی تصویر، کوئی ویڈیو، قتل کا جواز نہیں ہو سکتی
—فائل فوٹو: فیس بک/آصفہ بھٹو
آصفہ بھٹو نے کہا کہ کوئی ایپ، کوئی تصویر، کوئی ویڈیو، قتل کا جواز نہیں ہو سکتی —فائل فوٹو: فیس بک/آصفہ بھٹو

پاکستان کی خاتون اول اور رکنِ قومی اسمبلی آصفہ بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں سوشل میڈیا کی کم عمر اسٹار ثنا یوسف کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کی ہے, ثنا کو گزشتہ ہفتے اس کی 17 ویں سالگرہ سے ایک دن پہلے اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔

آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ افسوس ناک واقعہ لڑکیوں کو خاموش کرنے یا ان کے خوابوں کی تعبیر سے روکنے کا سبب نہیں بننا چاہیے۔

ثناء یوسف کو اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں ان کی رہائش گاہ پر ان کی والدہ اور خالہ کے سامنے ایک نامعلوم شخص نے گولی مار کر قتل کیا تھا، پولیس نے چند گھنٹوں میں ملزم عمر حیات کو گرفتار کر لیا، جس کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ثنا کو کئی بار اپنی خواہشات سے انکار کرنے پر قتل کیا۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) سید علی ناصر رضوی نے بتایا تھا کہ ملزم کو واقعے کے 20 گھنٹوں کے اندر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا، مقامی عدالت نے ملزم کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کر لیا تھا، تاکہ شناخت پریڈ مکمل کی جا سکے۔

آصفہ بھٹو زرداری نے اس واقعے کو خواتین اور لڑکیوں کے خلاف اس تشدد کی ایک خوفناک یاد دہانی قرار دیا، جو انہیں محض اپنے حقوق کا اظہار کرنے پر سہنا پڑتا ہے، انہوں نے ثنا کے خاندان، چترال کی برادری، اور اس بے معنی سانحے پر سوگوار تمام افراد سے تعزیت کی۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ثنا صرف ایک لڑکی تھی، جس کے پاس خواب تھے، ارادے تھے، اور ایک پوری زندگی اس کے سامنے تھی، اسے آزاد اور محفوظ زندگی گزارنے کا پورا حق تھا، جو کچھ اس کے ساتھ ہوا، وہ محض تشدد کا واقعہ نہیں بلکہ انکار کی سزا تھی، اور یہ واقعہ ہمیں سب کو ہلا کر رکھ دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مردانہ برتری سے جڑا ہوا تشدد نیا ہے نہ نایاب، اور اب اسے ثقافت یا روایت کے نام پر مزید برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔

آصفہ بھٹو نے کہا کہ یہ ذہنیت کہ عورت کا انکار توہین ہے، اور اس کی پسند و ناپسند کو کنٹرول کیا جانا چاہیے، یہ ذہنیت پرانی ہے، ظالمانہ ہے، اور ہماری بیٹیوں کو نگل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری والدہ، شہید بے نظیر بھٹو نے اسی ذہنیت کی دیواروں کو اپنی ہمت سے توڑا، انہوں نے صرف قیادت نہیں کی، بلکہ لاکھوں خواتین کے لیے دروازے کھولے، اور ہم پر فرض ہے کہ ہم ان دروازوں، ان کی میراث کو ثنا جیسی نوجوان لڑکیوں کے لیےکو کھلا رکھیں۔

انہوں نے ثنا کی موت کے بعد سوشل میڈیا پر ہونے والی نفرت انگیز مہم کی بھی مذمت کی، اور کہا کہ خوداظہار یا کسی بھی پلیٹ فارم پر موجودگی کو کبھی بھی تشدد کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی ایپ، کوئی تصویر، کوئی ویڈیو، قتل کا جواز نہیں ہو سکتی، یہ بات افسوس ناک ہے کہ لوگ ثنا کی ٹک ٹاک پر موجودگی کو اس کے قتل کی وجہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر یہی منطق ہے تو کیا پاکستان کی لاکھوں لڑکیاں خطرے میں ہیں؟ یہ سوچ نہ صرف خطرناک ہے بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔

انہوں نے ملک بھر کی نوجوان لڑکیوں کے لیے یکجہتی اور حوصلے کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیغام ہر اُس لڑکی کے لیے ہے، جو یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے، خود کو خاموش نہ ہونے دو، تمہیں خواب دیکھنے، بولنے، اور خوف کے بغیر جینے کا پورا حق ہے، پیچھے مت ہٹو، اگر تم ہٹیں، تو وہ جیت جائیں گے، لیکن اگر ہم مل کر آگے بڑھتے رہے، تو ہم ایک ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں لڑکیوں کو ان کی موت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا، بلکہ ان کی زندگی کو سراہا جائے گا۔

ثنا یوسف سوشل میڈیا پر خاصی مقبول تھیں، ان کے ٹک ٹاک پر تقریباً 8 لاکھ فالوورز اور انسٹاگرام پر تقریباً 5 لاکھ فالوورز تھے۔

کارٹون

کارٹون : 19 جون 2025
کارٹون : 18 جون 2025