’کیا ایران کا اگلا ہدف امریکی فضائی اڈے اور اثاثے ہوں گے؟‘
ہر فوجی مہم کے واضح اہداف ہونا ضروری ہوتے ہیں اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ امریکی اور مغربی حکومتوں کی خاموش حمایت سے بڑے پیمانے پر جاری فضائی بمباری کے ذریعے ایران کے ساتھ جنگ شروع کرنے کا اس کا بنیادی مقصد ایران کی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی جانب پیش قدمی کو روکنا تھا۔
ہوسکتا ہے کہ یہ کھلے عام نہ کہا گیا ہو لیکن اس کا ایک اہم مقصد ایران میں حکومت کی تبدیلی ہے تاکہ یہاں اسرائیل کے دیگر مشرق وسطی/علاقائی ہمسایوں جیسی حکومت بنانے کی کوشش کی جاسکے جو تل ابیب کے ساتھ دوستی کرکے خوش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کی صرف زبانی مذمت یا علامتی تنقید کرتے ہیں۔
ایک وسیع جنگ، غزہ میں جاری مسلسل بمباری، دیگر عسکری طریقوں اور فاقہ کشی سے کی جانے والی اس صدی کی بدترین نسل کشی سے توجہ ہٹانے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔ غزہ میں خوراک کی فراہمی معطل ہونے سے اسرائیل کے یورپی اتحادیوں میں تھوڑی بہت بےچینی پائی جارہی تھی حالانکہ انہوں نے اب تک غزہ کے معاملے پر اسرائیل کی غیر مشروط مادی اور سفارتی حمایت کی ہے۔
یورپی اتحادی میں نے اس لیے کہا کیونکہ امریکی انتظامیہ نسل پرست اسرائیلی حکومت کی مضبوطی سے حمایت کررہی ہے جو امریکی صدر کے ’غزہ رویرا منصوبے‘ پر عمل پیرا ہے۔ یہ غزہ کے ساحلوں کو سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کا ایک تصور ہے جس میں تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں کو اپنی زمین چھوڑنے اور دیگر (ممکنہ مسلم) ممالک میں منتقل ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔
درحقیقت غزہ کی نسل کشی اکتوبر 2023ء کے حملوں کے دوران یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کے حوالے سے نہیں ہے۔ امریکی صدارتی ایلچی اسٹیو ویٹکوف کے اقدامات سمیت بہت سارے ثبوت موجود ہیں۔ اسٹیو ویٹکوف کے خاندان کے کرپٹو کرنسی کے ذریعے ٹرمپ خاندان سے کاروباری تعلقات ہیں۔ امریکی ایلچی نے کم از کم دو بار ایسے معاہدوں سے دستبرداری اختیار کی ہے جن کی وجہ سے حماس کی اسیری میں موجود یرغمالیوں کی رہائی یا تبادلہ ممکن تھا۔ دوسری جانب سیکڑوں فلسطینی اسرائیل کی قید میں ہیں جن کی صورت حال یرغمالیوں سے بہتر نہیں۔
اسرائیل کی غیرمشروط حمایت کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کھلے تصادم میں اپنی افواج کو جھونکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی مکمل کوشش ہوگی کہ کسی نہ کسی طرح امریکا کو ایران کے ساتھ جنگ میں دھکیلا جائے۔
اسرائیل کی فضائی بمباری میں کئی سینئر ایرانی عسکری کمانڈرز، پاسدارانِ انقلاب کے لیڈران اور ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ایران کی جانب سے جوابی کارروائی میں اسرائیل پر بھرپور میزائل داغے گئے۔ اس سب کے دوران اسرائیل کے سابق وزیر اعظم اور اسرائیلی دفاعی فورسز کے سابق سربراہ ایہود باہاک نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے کرسٹیئن ایمن پور کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان مقاصد میں سے کچھ کی وضاحت کی۔
ایہود باہاک نے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل کے فضائی حملوں سے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے میں چند ہفتوں کی ’تاخیر‘ ہوسکتی ہے لیکن انہوں نے کہا کہ اگر امریکا بھی اسرائیل کی فضائی جنگی مہم کا حصہ بن جاتا ہے تب بھی وہ ایران کے مقصد کے حصول میں زیادہ سے زیادہ چند ماہ کی تاخیر کا سبب بن پائیں گے۔ انہوں نے بتایا، ’ان (ایران) کے پاس 400 کلوگرام یورینیم افزودہ ہے جو 60 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ درست آلات کے ساتھ وہ گودام میں بھی اسے 90 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں اور پھر ان کے پاس ایٹم بم ہوگا‘۔
انہوں نے بین الاقوامی جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے سربراہ کا حوالہ دیا جنہوں نے کہا تھا کہ ایران کی بہت سی اہم تنصیبات پرانی بارودی سرنگوں وغیرہ میں ’سینکڑوں گز‘ زیر زمین ہیں، ایہود باہاک نے کہا کہ یہ مقامات ’ہماری دسترس سے باہر ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’مجھے کوئی وہم نہیں ہے کہ ہم انہیں نقصان پہنچانے یا معمولی چوٹ پہنچانے سے زیادہ کچھ کرپائیں گے‘۔
اسرائیلی دفاعی فورسز کے سابق سربراہ نے مزید کہا کہ فضائی حملوں میں ابتدائی طور پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جوکہ توقعات سے زیادہ تھیں، ان کامیابیوں کی بنیاد پر ایران کو جوہری ڈیل کے جانب دھکیلنا چاہیے، غزہ میں جنگ ختم کرنی چاہیے اور اسے سعودی عرب سمیت خطے میں وسیع تر امن کی کوششوں میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس میں وقت لگے گا اور یہ آسان نہیں ہوگا لیکن پھر بھی یہ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر اسرائیل کے لیے تنازع کو طول دینا مشکل ہوگا تو اس لیے اسے کہنا چاہیے کہ ’ہم سے جو ہوسکتا تھا ہم نے کیا، اب آپ کی باری ہے‘۔ ایک ایسے وقت میں جب اسرائیلی انٹیلی جنس کی جانب سے ایرانی فوج کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنانے کو ایران میں اندرونی تقسیم کے مظہر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، ایہود باہاک نے بھی ایرانی رجیم کی تبدیلی کے مسئلے پر توجہ دی۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کو ایرانی سرزمین پر اتارے بغیر رجیم چینج ممکن نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکا نے کوریا، ویتنام اور افغانستان جیسے ممالک میں جنگیں نہیں جیتیں اور پوچھا کہ ’وہ جنگیں کیسے ہوئیں؟‘ انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ کیا صدر ٹرمپ یا کوئی امریکی رہنما حتیٰ کہ امریکی عوام بھی واقعی ایک اور جنگ میں اپنی فوج بھیجنا چاہیں گے؟
یہ سچ ہے کہ 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر باراک اوباما کی قیادت میں ہونے والے معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کیا تھا جس کے تحت امریکا نے ایران پر پابندیاں نرم کی تھیں اور ایران نے اپنا جوہری پروگرام روک دیا تھا۔ ٹرمپ کے معاہدہ ختم کرنے سے ایران نے دوبارہ یورینیم کی افزودگی شروع کردی یہاں تک کہ وہ ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ گیا۔ تو ایک طرح یہ جنگ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے حوالے سے کم بلکہ ایران کو امریکا اور اسرائیل کی منشا کے آگے سر جھکانے پر مجبور کرنے کے حوالے سے زیادہ ہے۔
اسی لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس تنازع میں غالب کون رہے گا۔ امریکا اور پوری مغربی پیداوار، جدید ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی اور سپلائی سے یہ سمجھنا غلط نہیں ہوگا کہ اسرائیل جنگ میں ایران کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب ایران کے پاس عملی طور پر واقعی کوئی فضائیہ نہیں ہے اور اس کے فضائی دفاعی نظام میں بھی خامیاں نظر آتی ہیں۔
دو ہزار بیلسٹک میزائل کا اس کا ذخیرہ آخر کتنے وقت تک کافی ہوگا؟ اس کے ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات ضروری ہیں۔ اب تک ایران پر جب بھی بڑے حملے ہوئے ہیں، وہ مزاحمت کرنے اور جوابی کارروائی کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تنازع طول پکڑتا ہے تو اسرائیل طویل مدتی طور پر اپنی جنگی پائیداری برقرار رکھ پائے گا یا پھر کوئی تیسرا فریق جنگ روکنے میں ثالثی کرے گا؟
یا ایران کو زیادہ دیوار سے لگایا گیا تو کیا وہ خطے میں امریکی اڈوں اور اثاثوں اور یہاں تک کہ امریکی افواج کی میزبانی کرنے والے اقوام پر براہ راست حملہ کرکے تنازع کو وسیع کرے گا تاکہ اسے روکنے کے لیے ممالک پر دباؤ بڑھے؟ ایسے کسی بھی واقعے کے اثرات نہ صرف خطے کی لاکھوں زندگیوں پر مرتب ہوں گے بلکہ عالمی معیشت پر یہ اثر انداز ہوگا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔