پاکپتن میں 20 نومولودوں کی اموات کے بعد نصف درجن میٹرنٹی ہومز سیل
پاکپتن کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں 20 نومولود بچوں کی اموات کے افسوسناک واقعے کے بعد ضلعی انتظامیہ حرکت میں آ گئی، کارروائی کرتے ہوئے متعدد غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ میٹرنٹی ہومز کو سیل کر دیا گیا، جب کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق، ڈپٹی ڈائریکٹر ہیلتھ ڈاکٹر احمد سلمان نے پاکپتن شہر اور گردونواح میں قائم متعدد غیر قانونی میٹرنٹی ہومز کو سیل کر دیا، جو پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں تھے۔
چار نجی ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز بھی بند کر دیے گئے، یہ کارروائی ان 20 بچوں کی اموات کے بعد کی گئی، جو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) پاکپتن میں انتہائی تشویشناک حالت میں لائے گئے تھے۔
جن نجی میٹرنٹی ہومز کو سیل کیا گیا، ان میں میٹرنٹی ہوم (22/ایس پی، پل باہمنی)، الفرید میڈی کیئر ہسپتال (ڈی ایچ کیو روڈ)، بشیر میٹرنٹی ہوم (میٹی اسٹاپ، ہوٹا روڈ)، دستگیر ہسپتال (چوک آریاں) اور عمران میٹرنٹی ہوم (سکندر چوک) شامل ہیں۔
یہ مراکز ساجدہ صابر، محمد پرویز، ستارہ (ایل ایچ وی)، اور محمد عمران سمیت دیگر افراد چلا رہے تھے۔
ڈپٹی کمشنر ماریا طارق نے ڈان کو بتایا کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال روڈ پر قائم ڈاکٹر ہسپتال، گرین ٹاؤن، شاہد ہسپتال، علی ہسپتال اور ایم ایم سی ہسپتال کے آپریشن تھیٹرز بھی سیل کر دیے گئے ہیں۔
دوسری جانب، پنجاب کے چیف سیکریٹری زاہد اختر زمان نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاکپتن میں سہولیات کی کمی اور 20 بچوں کی اموات کے درمیان براہ راست کوئی تعلق نظر نہیں آتا، کیونکہ یہ بچے پہلے ہی انتہائی تشویشناک حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے۔
انہوں نے پیر کے روز ڈی ایچ کیو ہسپتال پاکپتن کے ہنگامی دورے کے دوران کہا کہ ہم تمام پہلوؤں کا پیشہ ورانہ انداز میں گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ 16 سے 22 جون کے درمیان بچوں کے وارڈ میں ہونے والی اموت کے پس منظر میں کیا گیا، جس کی ابتدائی رپورٹ 27 جون کو ڈان میں شائع ہوئی تھی۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف سیکریٹری نے بتایا کہ پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے، جو سینئر میڈیکل پروفیشنلز پر مشتمل ہے اور یہ دو سے تین دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے کمشنر اور کمیٹی کو ہدایت دی ہے کہ وہ متاثرہ خاندانوں سے خود جا کر ملاقات کریں، ان کے خدشات سنیں اور ان کے بیانات سرکاری طور پر ریکارڈ کریں۔
زاہد اختر زمان نے مزید بتایا کہ وزیراعلیٰ صورتحال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کی ہدایت پر ہی وہ خود پاکپتن آئے، انہوں نے اشارہ دیا کہ وزیراعلیٰ خود بھی متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کے لیے پاکپتن جا سکتی ہیں۔
ہسپتال کے دورے کے دوران چیف سیکریٹری نے بچوں کے وارڈ سمیت مختلف شعبہ جات کا معائنہ کیا اور طبی سہولیات و عملے کی دستیابی کا جائزہ لیا، انہوں نے کئی والدین سے براہ راست گفتگو کی اور یقین دہانی کروائی کہ ہسپتال کے تمام بنیادی مسائل جلد حل کیے جائیں گے۔
اس سے قبل، ڈپٹی کمشنر ماریا طارق نے ڈی ایچ کیو ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عدنان کی جانب سے بنائی گئی تین رکنی اندرونی کمیٹی کی رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا، اس کمیٹی کی سربراہی ڈاکٹر مدثر (چیف کنسلٹنٹ پیڈی ایٹریشن، ڈی ایچ کیو) کر رہے تھے۔
اس رپورٹ میں پیڈی ایٹرک اسٹاف کو ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیا گیا اور صرف ڈاکیومنٹیشن سے متعلق ریفریشر کورسز کی سفارش کی گئی، رپورٹ کی تیاری کے دوران بچوں کے وارڈ کا ڈیتھ رجسٹر بھی مبینہ طور پر غائب ہو گیا، جس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
بعد ازاں، کمشنر ڈاکٹر آصف طفیل نے ساہیوال میڈیکل کالج کے پرنسپل کو ہدایت دی کہ وہ ایک بیرونی انکوائری کمیٹی تشکیل دیں، جس کی سربراہی ڈاکٹر محمد شاہد (ایسوسی ایٹ پروفیسر و آئی سی یو انچارج) کریں، جب کہ ڈاکٹر محمد رضوان اسحٰق (ہیڈ آف میڈیکل یونٹ 2، ایس ایم سی) بھی اس میں شامل ہوں گے۔
چیف سیکریٹری زاہد اختر زمان نے اپنے دورے کے اختتام پر بابا فرید کے مزار پر بھی حاضری دی اور 783ویں سالانہ عرس کی تیاریوں کا جائزہ لیا، ان کے ہمراہ کمشنر ڈاکٹر آصف طفیل، آر پی او محبوب رشید اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔