پیوٹن کا ٹرمپ کو پیغام: یوکرین جنگ کا حل چاہتے ہیں مگر مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ٹیلی فونک گفتگو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ ماسکو یوکرین کی جنگ کا مذاکراتی حل چاہتا ہے، لیکن وہ اپنے اصل مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کریملن کے مشیر یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ اس تفصیلی گفتگو میں ایران اور مشرق وسطیٰ کے امور بھی زیرِ بحث آئے، جبکہ ٹرمپ نے ’ یوکرین میں فوجی کارروائی کو جلد ختم کرنے’ کا معاملہ ایک بار پھر اٹھایا۔
یوری اوشاکوف نے مزید بتایا کہ’ ولادیمیر پیوٹن نے اپنی طرف سے واضح کیا کہ ہم اس تنازع کے سیاسی اور مذاکراتی حل کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔’
یوری اوشاکوف کے مطابق، پیوٹن نے ٹرمپ کو گزشتہ ماہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگی قیدیوں اور فوجیوں کی لاشوں کے تبادلے پر ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد سے آگاہ کیا، اور کہا کہ ماسکو کییف کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ’ ہمارے صدر نے یہ بھی کہا کہ روس اپنے مقرر کردہ مقاصد ضرور حاصل کرے گا: یعنی اُن معلوم وجوہات کا خاتمہ جو موجودہ صورتحال اور اس شدید محاذ آرائی کا باعث بنیں، اور روس ان مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔’
کریملن کی طرف سے جاری کردہ بیان میں اس بات کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا کہ پیوٹن نے اس گفتگو کے دوران ماسکو کے مؤقف میں کوئی تبدیلی کی ہو۔
خیال رہے کہ ٹرمپ نے صدر بنتے وقت جنگ جلد ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن دونوں فریقین کے درمیان پیشرفت نہ ہونے پر وہ بارہا اپنی مایوسی ظاہر کر چکے ہیں۔
’ معلوم وجوہات’ سے مراد کریملن کا یہ مؤقف ہے کہ اسے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت روکنے اور مغربی اتحاد کو روس پر حملے کے اڈے کے طور پر استعمال ہونے سے بچانے کے لیے جنگ پر مجبور ہونا پڑا۔
یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی اس مؤقف کو محض ایک بہانہ قرار دیتے ہیں اور اس جنگ کو سامراجی طرز کی جنگ کہتے ہیں، جبکہ ٹرمپ اپنے سابقہ عوامی بیانات میں یوکرین کی نیٹو رکنیت قبول نہ کرنے پر ماسکو کے مؤقف سے ہمدردی ظاہر کر چکے ہیں۔
یوری اوشاکوف کے مطابق، پیوٹن اور ٹرمپ کے درمیان امریکا کی جانب سے یوکرین کو کچھ اہم ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے فیصلے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
ایران کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ’ روسی فریق نے اس بات پر زور دیا کہ تمام تنازعات، اختلافات اور کشیدہ صورتحال کو صرف سیاسی اور سفارتی طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔’
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ اسرائیل ایران جنگ کے دوران ٹرمپ نے امریکا کے اسٹیلتھ بمبار طیارے بھیج کر ایران کے تین جوہری مراکز پر حملہ کیا تھا، جس کی ماسکو نے سخت مذمت کی تھی اور اسے بلاجواز اور غیر قانونی قرار دیا تھا۔












لائیو ٹی وی