لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کو 9 مئی فسادات میں ’سازش اور معاونت‘ کا ذمہ دار قرار دے دیا
لاہور ہائی کورٹ نے 9 مئی کے 8 مقدمات میں بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان کی ضمانت مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جس قرار دیا ہے کہ 9 مئی کے فسادات کے سلسلے میں قید عمران خان پر عائد الزامات سے متعلق پراسیکیوشن کے شواہد جرائم کی ’ سازش اور معاونت ’ کے مترادف ہیں۔
سابق وزیر اعظم کو 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیے جانے کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جو کم از کم 24 گھنٹے تک جاری رہے تھے۔
اس دوران مظاہرین نے سرکاری عمارتوں اور فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا تھا اور آگ لگا دی تھی جبکہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ میں بھی داخل ہو گئے تھے۔
ریاست نے اس کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا اور 9 مئی کے واقعات کے بعد ان پر کئی مقدمات دائر کیے گئے، جن میں سے کئی میں وہ بری بھی ہو چکے ہیں۔
عمران خان نے جنوری میں لاہور ہائی کورٹ سے 9 مئی فسادات کے 8 مقدمات میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست کی تھی، جن میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملہ بھی شامل ہے، دیگر مقدمات میں لبرٹی میں عسکری ٹاور پر حملہ، ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کے دفاتر، شادمان پولیس اسٹیشن پر حملہ، جناح ہاؤس کے قریب پولیس گاڑیوں کو جلانا اور شیرپاؤ پل پر تشدد شامل ہیں۔
اس سے قبل انسداد دہشت گردی عدالت نے 27 نومبر 2024 کو سابق وزیر اعظم کی ان مقدمات میں ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی، لاہور ہائی کورٹ نے بھی گزشتہ ہفتے مختصر حکم نامے میں درخواست مسترد کر دی تھی۔
اپنے تفصیلی فیصلے میں جسٹس سید شہباز علی رضوی اور جسٹس طارق محمود باجوہ نے کہا کہ ’ اس تناظر میں درخواست گزار (عمران خان) کے وکیل کا یہ مؤقف کہ 9 مئی 2023 کو درخواست گزار جیل میں تھا، اس ( عمران خان) کے لیے کوئی فائدہ مند نہیں۔’
اپنے تفصیلی فیصلے میں بینچ نے دو پولیس اہلکاروں کے بیانات کا حوالہ دیا، جو پراسیکیوشن کے گواہ ہیں، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خفیہ طور پر پی ٹی آئی کی میٹنگز میں شرکت کی تھی، جن میں مبینہ طور پر پارٹی کے بانی نے دیگر رہنماؤں کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے ممکنہ گرفتاری کی صورت میں فوجی تنصیبات پر حملے کی ہدایات دی تھیں۔
بینچ نے مزید کہا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مذکورہ گواہوں کے بیانات تاخیر کا شکار ہوئے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ گواہوں کے بیانات سے درخواست گزار کا جو کردار واضح ہوتا ہے، وہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 120-بی (فوجداری سازش کی سزا) اور 121-اے (ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے یا اس کی کوشش کی سازش) کے زمرے میں آتا ہے۔
بینچ نے قرار دیا کہ گواہوں کے بیانات بادی النظر میں ظاہر کرتے ہیں کہ 9 مئی کو کیے گئے جرائم کی سازش اور معاونت درخواست گزار نے 4 مئی کو چکری ریسٹ ایریا، راولپنڈی میں، 7 مئی اور 9 مئی کو لاہور میں کی تھی۔
بینچ کے ججز نے مزید کہا کہ’ ہم نے یہ بھی نوٹ کیا کہ درخواست گزار کی فوجداری سازش/معاونت اور اس کے کہے گئے الفاظ کے نتیجے میں جانوں کا ضیاع اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچا، درخواست گزار کا کیس، جو تمام شریک ملزمان کا رہنما ہے، اُن افراد سے مختلف ہے جنہیں مختلف عدالتوں نے ضمانت دی ہے۔’
بینچ نے کہا کہ پراسیکیوشن کے پاس پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی تیار کردہ آڈیو، ویڈیو کلپس اور ٹرانسکرپٹس موجود ہیں جن کا فارنزک تجزیہ درکار ہے۔
تاہم عدالت نے کہا کہ تحقیقاتی افسر کی بارہا کوششوں کے باوجود عمران خان نے پولی گراف اور فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کرانے انکار کیا، جو بادی النظر میں تفتیش کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے اور ان کے گریزاں رویے کو ظاہر کرتا ہے۔
ان مشاہدات کے ساتھ جج صاحبان نے کہا کہ ’ ہم درخواست گزار کو ضمانت بعد از گرفتاری دینے کے حق میں نہیں ہیں، لہٰذا یہ درخواست مسترد کی جاتی ہے۔’