پاکستان میں کینسر پر قابو پانے کے لیے قومی رجسٹری ناگزیر، ماہرین صحت کا انتباہ

شائع July 6, 2025
—سائینٹیفک گلوبل
—سائینٹیفک گلوبل

پاکستان میں کینسر کے بڑھتے کیسز کے پیشِ نظر، ماہرین صحت نے ملک میں قومی کینسر رجسٹری کے قیام کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ بیماری کی مؤثر نگرانی، پالیسی سازی اور وسائل کی تقسیم ممکن ہو سکے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، معروف طبی جریدے دی لینسٹ ریجنل ہیلتھ – ساؤتھ ایشیا میں شائع شدہ ایک نئی تحقیق میں پاکستان میں متحدہ قومی کینسر رجسٹری کے فوری قیام کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ ملک میں کینسر کے پھیلاؤ کی نگرانی، پالیسی سازی اور وسائل کی مؤثر تقسیم ممکن بنائی جا سکے۔

آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو)، یونیورسٹی آف وسکونسن اور شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے ماہرین نے مشترکہ طور پر پاکستان میں کینسر رجسٹریز پر یہ تحقیق کی ہے۔

تحقیق کے مطابق، پاکستان کو کینسر کے ایک شدید بوجھ کا سامنا ہے۔

2022 میں اندازاً 1 لاکھ 85 ہزار 748 نئے کینسر کیسز اور 1 لاکھ 18 ہزار 631 اموات کینسر سے رپورٹ ہوئیں۔

تاہم، قومی سطح پر ایک مربوط کینسر رجسٹری کی عدم موجودگی کے باعث کینسر سے متعلق ڈیٹا منتشر، غیر مربوط اور نامکمل ہے، جو مؤثر صحت عامہ کی منصوبہ بندی میں رکاوٹ بنتا ہے۔

ڈاکٹر زہرہ نے کہا کہ کینسر رجسٹریز انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، یہ آبادی کی سطح پر بیماری کے رجحانات اور علاج کی مؤثریت سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہیں، جو صحت کے ذمہ دار اداروں کو پالیسی سازی اور وسائل کی درست تقسیم میں مدد دیتی ہیں۔

تحقیق میں پاکستان میں 17 مختلف کینسر رجسٹریز کی نشاندہی کی گئی ہے، جن کی جغرافیائی حدود اور دائرہ کار میں نمایاں فرق پایا گیا، فی الحال ملک کے 129 شہروں میں سے صرف 19 شہر کسی نہ کسی رجسٹری کو ڈیٹا فراہم کر رہے ہیں۔

زیادہ تر رجسٹریز کو فنڈز کی کمی، انتظامی مسائل اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے غیر مستقل طریقہ کار جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔

تحقیق میں ان رجسٹریز کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کیا گیا ہے، جو مستقبل میں منصوبہ بندی اور تحقیقی سرگرمیوں کے لیے مددگار ہو سکتی ہیں۔

ڈاکٹر سحر سلیم ورانی کے مطابق قومی کینسر رجسٹری کا قیام کسی ایک ادارے کی ذمہ داری نہیں، اس کے لیے حکومت، اداروں اور تمام متعلقہ فریقین کے اشتراکِ عمل کی ضرورت ہے، یہ تحقیق ایک ابتدائی قدم ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ بکھری ہوئی کوششوں کو ایک متحد قومی حکمتِ عملی میں بدلا جائے۔

تحقیق میں جن رجسٹریز کا جائزہ لیا گیا، ان میں آغا خان یونیورسٹی کینسر رجسٹری (اے کے یو-سی آر) بھی شامل ہے، جو 2009 میں قائم کی گئی تھی، یہ ایک ہسپتال پر مبنی رجسٹری ہے، جس میں بین الاقوامی معیار کی ڈیٹا کوڈنگ استعمال کی جاتی ہے۔

اب تک 71 ہزار 900 سے زائد کیسز کو امریکی سافٹ ویئر CNExT کے ذریعے رجسٹر کیا جا چکا ہے۔

اے کے یو ایچ میں اس رجسٹری کی کلینیکل نگرانی کینسر کمیٹی کرتی ہے، جب کہ تربیت یافتہ رجسٹرارز ڈیٹا کے معیار اور طبی اہمیت کو یقینی بناتے ہیں۔

پاکستان میں غیر متعدی امراض (این سی ڈیز) کی روک تھام اور صحت کے فروغ کے لیے ایک قومی ایکشن پلان (این اے پی-این سی ڈی) موجود ہے، جس میں کینسر کی روک تھام اور کنٹرول کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

وزارتِ قومی صحت نے پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل (پی ایچ آر سی) کو کینسر رجسٹری کا مرکزی ادارہ نامزد کیا تھا اور 2020 میں ایک نیشنل اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کی گئی، جس میں ملک بھر کی بڑی رجسٹریز اور ڈیٹا سینٹرز کے نمائندے شامل تھے۔ تاہم، اب بھی مکمل، مسلسل اور یکساں ڈیٹا کی دستیابی ایک بڑا چیلنج ہے۔

ڈاکٹر سید نبیل ظفر نے کہا کہ پاکستان نے قومی سطح پر کینسر رجسٹری کو اپنانے میں ہمیشہ مشکلات کا سامنا کیا ہے، لیکن اب جبکہ کینسر کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، ایک متحدہ رجسٹری ناگزیر ہو چکی ہے، اگرچہ یہ عمل محنت طلب ہے، لیکن مالی لحاظ سے زیادہ مہنگا نہیں اور پاکستان میں یہ آسانی سے ممکن ہے۔

کارٹون

کارٹون : 6 جولائی 2025
کارٹون : 5 جولائی 2025