فیکٹ چیک: ابصار عالم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت نہیں کی، وائرل کلپ نامکمل ہے
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر متعدد صارفین کی جانب سے شیئر کردہ ویڈیو کلپ میں دعویٰ کیا گیا کہ اس کلپ میں صحافی ابصار عالم پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد تلاش کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، تاہم یہ وائرل کلپ نامکمل ہے اور اصل میں وہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو واقعی کوئی فائدہ حاصل ہوگا یا نہیں؟
آئی ویری فائی پاکستان کی ٹیم کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان دعوؤں کے بعد ایک فیکٹ چیک شروع کیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ دعویٰ کہ ابصار عالم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد بیان کیے، گمراہ کن ہے۔
واضح رہے کہ 2020 میں امریکا کی ثالثی سے ہونے والے ’ابراہیمی معاہدے‘ اسرائیل اور متعدد عرب ممالک (بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان ) کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے تاریخی اہمیت رکھتے ہیں، ان معاہدوں کے ذریعے سیکیورٹی، اقتصادی تعاون اور ٹیکنالوجی کے تبادلے جیسے باہمی مفادات کے تحت سفارت خانے اور تجارتی معاہدے کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔
اگرچہ یہ معاہدے مشرق وسطیٰ میں ایک سفارتی پیش رفت کے طور پر دیکھے گئے، مگر پاکستان میں ان پر بحث و مباحثہ اور مخالفت بھی سامنے آئی، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف دونوں نے واضح کیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا، کیونکہ یہ فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کے دیرینہ موقف سے انحراف ہوگا، اور یہ صرف اسی صورت میں زیر غور لایا جا سکتا ہے جب یہ پاکستان کے قومی مفاد میں ہو۔
جمعرات کو اینکر اور یوٹیوبر طارق متین نے سما ٹی وی کے ایک پوڈکاسٹ سے ابصار عالم کا ایک کلپ شیئر کیا، جس پر یہ عبارت درج تھی کہ ’ابصار عالم نے اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد گنوانے شروع کر دیے، یہ لوگ اپنی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔‘
کلپ کا متن کچھ یوں تھا:
’اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں فائدے ہوں گے، جیسے بلوچستان پر دباؤ کم ہو جائے گا، یا بھارت اور اسرائیل ہمارے خلاف سازشیں بند کر دیں گے، شاید ہمیں زرعی یا عسکری ٹیکنالوجی تک رسائی مل جائے، مگر کیا اس کی کوئی گارنٹی ہے؟
بھارت بھی ہمارا دشمن ہے، مگر ہم اس سے سفارتی تعلقات رکھتے ہیں، (جس میں ثقافتی تبادلے اور عوامی روابط شامل ہیں)، کیا اس سے کبھی بھارت نے کالعدم ٹی ٹی پی کی حمایت بند کی؟ نہیں۔ تو سفارتی تعلقات ضروری نہیں کہ ہمارے نظریاتی یا جغرافیائی مفادات کی حفاظت کریں۔
ہر ملک اپنے مفاد میں کام کرتا ہے، آج اگر کوئی بھارتی ہائی کمیشن جاتا ہے تو اس کے خاندان کی چھان بین کی جاتی ہے، کل کو اگر یہاں اسرائیلی سفارت خانہ کھلتا ہے تو لوگ وہاں بھی جائیں گے، کیا ہم سب کی تحقیقات کریں گے؟
’ہمیں اس سے ملے گا کیا؟ میری سمجھ سے باہر ہے، کیا امریکا ہمیں اپنا اتحادی مان لے گا؟ ہمارے قرضے معاف کر دے گا؟ ہمیں ایف-35 طیارے تحفے میں دے گا؟ کیا بدلے گا؟‘
یہ پوسٹ ایک لاکھ سے زائد صارفین نے دیکھی۔
پی ٹی آئی سے منسلک ایک اکاؤنٹ نے بھی یہی کلپ شیئر کیا اور کیپشن دیا کہ ’جو کل تک عمران خان کو اسرائیل کا ایجنٹ کہہ رہا تھا، آج وہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد گنوا رہا ہے، کیونکہ نہ ان کی زبان ان کی ہے نہ آواز، بس جو اسٹیبلشمنٹ ریکارڈ کرواتی ہے وہی سناتے ہیں۔
اس پوسٹ کو 64 ہزار ویوز ملے۔
یہی دعوے یہاں، یہاں، یہاں، اور یہاں بھی شیئر کیے گئے۔
وائرل ہونے کے باعث اس دعوے کی صداقت جانچنے کے لیے فیکٹ چیک کیا گیا، کیونکہ یہ معاملہ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق عوامی دلچسپی کا حامل ہے۔
”ابصار عالم پوڈکاسٹ“ کے کلیدی الفاظ پر یوٹیوب پر تلاش کرنے سے 10 جولائی 2025 کو سما ٹی وی کے چینل پر ایک ویڈیو ملی، جس کا عنوان تھا کہ ’ابراہم اکارڈ 2، ٹرمپ اور نیتن یاہو کا جشن، عرب ممالک، اسرائیل میں قربتیں امن مل جائے گا اگر۔۔۔ پاکستان کو پیغام، ابصار عالم کے تہلکہ خیز انکشافات‘
ویڈیو میں ساتویں منٹ پر میزبان نے سوال کیا کہ کیا ممکنہ طور پر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا، جیسا کہ کئی عرب ممالک نے کیا؟
ابصار عالم نے جواب میں کہا کہ یہ شرط نہیں ہونی چاہیے کہ عرب ممالک جو کریں گے، وہ پاکستان کرے گا، پاکستان عرب ممالک کا غلام نہیں ہے، ہماری ان (عرب ممالک) کے ساتھ اچھی دوستی ہے، وہ رہنی چاہیے، ہماری ایران کے ساتھ بھی دوستی ہے، اسی طرح، چین اور امریکا کے ساتھ بھی ہے، انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینی عوام کے حقوق کی ضمانت کے بغیر اگر ابراہم اکارڈ پر دستخط کرتے ہیں تو یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔
وائرل کلپ، جس میں ابصار عالم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ممکنہ فوائد کی وضاحت کر رہے ہیں، دراصل وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے کسی بھی ممکنہ فائدے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم کہتے ہیں ہم ایٹمی طاقت ہیں، میزائل ٹیکنالوجی رکھتے ہیں، 25 کروڑ عوام کے ساتھ ایک خوددار قوم ہیں، دنیا کی دوسری بڑی اسلامی مملکت اور واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہیں، تو ہمیں اصولی مؤقف پر قائم رہنا چاہیے، اگر فلسطینیوں پر ظلم جاری رہا اور غزہ کے مسلمانوں پر حملے ہوتے رہے اور یہاں اسرائیلی سفارت خانہ کھل گیا، طیارے اور سیاح آنا شروع ہو گئے، تو یہ اچھی علامت نہیں ہو گی۔
’بھارت کے ساتھ ہماری جنگوں کی مثال دی جاتی ہے، مگر یہ مثال درست نہیں، بھارت اور ہم ایک ہی ملک تھے، نظریاتی بنیاد پر علیحدہ ہوئے، کشمیر پر ہمارا تنازع ہے، مگر پھر بھی بھارت سے ثقافتی اور عوامی سطح پر تعلقات رہے ہیں، فلسطین کے ساتھ ہمارے مذہبی، ثقافتی اور عوامی روابط ہیں، اسرائیل سے کبھی نہیں تھے۔
ابصار عالم نے اس وائرل کلپ کے جواب میں ایکس پر 10 جولائی کو طارق متین کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ طارق صاحب اگر آپ نے کلپ مکمل سنا ہوتا تو اپنی ہی بددیانتی اور کم مائیگی کا احساس ہو جاتا۔
نتیجہ:
وائرل ویڈیو کے بارے میں یہ دعویٰ کہ ابصار عالم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد بیان کیے، گمراہ کن ہے، مکمل انٹرویو میں وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ممکنہ فوائد پر سوال اٹھا رہے ہیں اور ان دلائل کا تجزیہ کر رہے ہیں جو عموماً اس کی حمایت میں پیش کیے جاتے ہیں۔












لائیو ٹی وی