• KHI: Partly Cloudy 16.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 12°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 16.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 12°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.9°C

فیکٹ چیک: وائرل ویڈیو میں ڈیوٹی سے انکاری اہلکاروں کو کورٹ مارشل کیلئے بلوچستان سے پنجاب لے جانے کا دعویٰ غلط ہے

شائع July 22, 2025
— اسکرین گریب: ایکس
— اسکرین گریب: ایکس

17 جولائی 2025 سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر متعدد صارفین نے بسوں کے ایک قافلے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ فوجی اور پولیس اہلکار ہیں جنہیں بلوچستان میں لڑنے سے انکار کرنے کے بعد پنجاب واپس بھیجا جا رہا ہے تاکہ ان کے خلاف انضباطی کارروائی کی جا سکے، تاہم یہ ویڈیو جون 2025 کی ہے اور اس کا پاکستانی فوج یا کسی سیکیورٹی ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

حال ہی میں بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں کی شدت اور تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے، گزشتہ ہفتے قلات میں ایک مسافر بس پر فائرنگ کے واقعے میں 3 افراد جاں بحق جبکہ 7 زخمی ہوئے۔

سیکیورٹی فورسز صوبے میں عسکریت پسندوں کے خلاف معمول کے مطابق کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔

17 جولائی کو ایک ریاست مخالف اکاؤنٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں بسوں کا ایک قافلہ سڑک پر رواں دواں دکھائی دے رہا ہے، جب کہ ویڈیو کے اوپری دائیں کونے میں ’کوئٹہ‘ کا لفظ درج ہے، جس سے مقام کا تاثر دیا گیا۔

اس پوسٹ کے کیپشن میں لکھا تھا کہ ’بریکنگ نیوز: ریپبلک آف بلوچستان کے لیے بڑی کامیابی، ہم نے کہا تھا کہ بلوچستان نگلنے کے لیے بہت بڑا ہے، 500 سے زائد پاکستانی فوجی اور پولیس اہلکار، جنہوں نے بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑنے سے انکار کیا، مبینہ طور پر پنجاب واپس بھجوائے جا رہے ہیں، ان سپاہیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اب ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی متوقع ہے، یہ ایک غیر معمولی اور اہم پیشرفت ہے جو بلوچستان میں تعینات سیکیورٹی فورسز کے اندرونی اختلافات کو ظاہر کرتی ہے‘۔

تاہم، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس دعوے کے ساتھ نہ تو کسی معتبر ذریعے کا حوالہ دیا گیا اور نہ ہی کوئی خبر یا رپورٹ شیئر کی گئی، اس پوسٹ میں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ مبینہ اہلکار کون سی یونٹس یا علاقوں میں تعینات تھے یا ویڈیو کب کی ہے۔

یہ پوسٹ اب تک 1 لاکھ 32 ہزار مرتبہ دیکھی جا چکی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس دعوے کے ساتھ نہ تو کسی مستند ذرائع کا حوالہ دیا گیا، نہ ہی کسی قابل اعتبار خبر کا لنک فراہم کیا گیا۔ اس میں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ مبینہ طور پر جن سیکیورٹی اہلکاروں نے انکار کیا، وہ کن علاقوں یا یونٹس سے تعلق رکھتے تھے، یا یہ ویڈیو کب کی ہے۔

یہ پوسٹ 1 لاکھ 32 ہزار مرتبہ دیکھی گئی۔

اسی دعوے پر مبنی ویڈیو کلپ دیگر صارفین، بشمول بھارتی پروپیگنڈا اکاؤنٹس کی جانب سے بھی شیئر کیا گیا، جنہیں یہاں، یہاں، یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان پوسٹس کو بالترتیب 2 لاکھ 7 ہزار، 2 لاکھ 12 ہزار، 2 لاکھ 45 ہزار اور 97 ہزار بار دیکھا گیا۔ ۔

یہی دعویٰ مزید دیگر پوسٹس میں بھی شیئر کیا گیا، جنہیں یہاں، یہاں، یہاں، یہاں، یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

اس دعوے کی صداقت جانچنے کے لیے ایک فیکٹ چیک کا آغاز کیا گیا، کیونکہ یہ ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی تھی، بلوچستان کی سیکیورٹی صورتحال میں دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ حاصل کر رہی تھی، اور اس میں عوامی تاثر کو متاثر کرنے اور صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر منفی اثر ڈالنے کی صلاحیت موجود تھی۔

اگرچہ ویڈیو میں بسوں کے اندر موجود افراد کی شناخت ممکن نہ تھی، کیونکہ کھڑکیاں ڈھکی ہوئی تھیں اور کسی کو سوار یا اترتے نہیں دکھایا گیا، تاہم ویڈیو سے منسوب دعویٰ سوالات کو جنم دیتا ہے۔

واضح طور پر، ویڈیو میں نہ تو کسی فوجی یا پولیس اہلکار کو دکھایا گیا اور نہ ہی کسی سیکیورٹی گاڑی کو بسوں کے قافلے کے ساتھ دیکھا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک بس کی چھت پر سامان کے ساتھ بچوں کی ایک الیکٹرانک گاڑی بھی رکھی ہوئی تھی۔

ویڈیو میں دکھائی گئی بسوں پر موجود ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی شناخت کے لیے کلیدی الفاظ کی تلاش کی گئی، جس سے ’ال یاسر موورز‘ نامی دو ٹک ٹاک اکاؤنٹس سامنے آئے، دونوں اکاؤنٹس کے مطابق یہ کمپنی کوئٹہ سے تفتان (ایران کی سرحد کے قریب واقع ایک قصبہ) کے درمیان سفری خدمات فراہم کرتی ہے۔

جب فراہم کردہ نمبر پر اکاؤنٹ کے مالک سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بھی تصدیق کی کہ یہ سروس صرف کوئٹہ تا تفتان روٹ پر چلتی ہے۔

اس کے علاوہ ویڈیو میں ’چاغی ایل پی جی پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کا بورڈ بھی نظر آتا ہے، جو بلوچستان میں قائم ایک گیس امپورٹر کمپنی ہے, جب کمپنی کے نمائندے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کی خدمات، بشمول بورڈز اور سائن بورڈز، صرف تفتان اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک محدود ہیں۔

اسی بات کی تصدیق ڈان کے کوئٹہ میں نمائندے سلیم شاہد نے بھی کی، جنہوں نے بتایا کہ مذکورہ کمپنی کے بورڈز دالبندین اور نوشکی میں نصب ہیں, یہ دونوں علاقے کوئٹہ تا تفتان راستے پر واقع ہیں۔

ریورس امیج سرچ کے ذریعے یہی ویڈیو کلپ ایک ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر 22 جون کو پوسٹ شدہ ملا، جو بلوچستان کی موجودہ صورتحال سے تقریباً ایک ماہ پہلے کا ہے۔

فریم بہ فریم تجزیے سے تصدیق ہوئی کہ وائرل ہونے والی ویڈیو اور اصل میں پوسٹ کی گئی ویڈیو ایک ہی ہیں۔

یہ ٹک ٹاک اکاؤنٹ باقاعدگی سے ایسی ویڈیوز شیئر کرتا ہے جن میں بسیں اور دیگر گاڑیاں سنسان سڑکوں پر سفر کرتی دکھائی دیتی ہیں، ان ویڈیوز کے ساتھ نہ تو کیپشن دیے گئے ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی وضاحت، جس کی وجہ سے ان کا سیاق و سباق واضح نہیں ہوتا، تاہم ان میں کسی بھی فوجی گاڑی یا سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی نہیں ہوتی۔

مزید برآں، متعلقہ کلیدی الفاظ کے ذریعے کی گئی تلاش کے دوران کسی بھی مستند ذرائع ابلاغ یا معتبر ذرائع پر مبنی اکاؤنٹس سے ایسی کوئی خبر نہیں ملی جس میں بلوچستان میں لڑنے سے انکار پر 500 سیکیورٹی اہلکاروں کو واپس پنجاب بھیجے جانے کا ذکر ہو، نہ تو موجودہ وقت میں اور نہ ہی 22 جون کے آس پاس جب یہ ویڈیو سب سے پہلے شیئر کی گئی تھی۔

لہٰذا، فیکٹ چیک کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ وائرل ویڈیو سے متعلق دعویٰ کہ سیکڑوں پاکستانی فوجی اور پولیس اہلکار بلوچستان میں کارروائی سے انکار پر فوجی عدالت کا سامنا کرنے کے لیے واپس پنجاب بھیجے جا رہے ہیں، غلط ہے۔

ویڈیو میں نہ تو کسی فوجی گاڑی کو دکھایا گیا ہے اور نہ ہی کسی فوجی موجودگی کے آثار ہیں، اور جس اکاؤنٹ سے ویڈیو کو سب سے پہلے شیئر کیا گیا وہ باقاعدگی سے ایسی ویڈیوز اپلوڈ کرتا ہے جن میں صرف ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں دکھائی دیتی ہیں اور ان میں سیکیورٹی فورسز کی کوئی نشاندہی نہیں ہوتی۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025