حکومت روپے کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف، بینکوں کا خدشات کا اظہار
مالیاتی شعبے کے ذرائع کے مطابق بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں پر ڈالر کی قیمت کو موجودہ مارکیٹ سطح سے نیچے لانے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں پیر کے روز ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، وزارت خزانہ اور بینکوں کے سینئر حکام نے شرکت کی، اجلاس میں زرمبادلہ کی شرح کو مستحکم کرنے اور ڈالر کی قیمت کو کم کرنے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔
تاہم کچھ بینکرز نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت جو شرح چاہتی ہے وہ مارکیٹ کے حالات کی عکاسی نہیں کرتی، ایک بینکنگ ذرائع نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے مخصوص ڈالر ریٹ کے بارے میں وضاحت نہیں دی گئی، لیکن ہدایت واضح ہے ’قیمت کم رکھنی ہے‘۔
رپورٹس کے مطابق بینکوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ درآمد کنندگان کو ڈالر کم نرخ پر فروخت کریں، جب کہ برآمد کنندگان سے کہا گیا ہے کہ وہ زرمبادلہ کی آمدن پر پریمیم کا مطالبہ نہ کریں، گزشتہ ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک تجارتی بینکوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا اور انہیں کہا جا رہا ہے کہ طلب و رسد کے دباؤ کے باوجود ڈالر کی قیمت نیچی رکھیں۔
مارکیٹ کے شرکا کا کہنا ہے کہ ڈالر کی مانگ اب بھی زیادہ ہے کیونکہ قلت برقرار ہے، حالانکہ اسٹیٹ بینک اور بینکوں نے سرکاری طور پر اس کا اعتراف نہیں کیا، لیکن جو درآمد کنندگان لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھلوانا چاہتے ہیں وہ شکایت کر رہے ہیں کہ بینک سرکاری نرخ سے 2.50 روپے فی ڈالر زیادہ چارج کر رہے ہیں، کچھ بینکرز نے انکشاف کیا کہ اسٹیٹ بینک کسی بھی قیمت پر ریٹ نیچے لانے کے لیے پرعزم نظر آتا ہے۔
23 جولائی سے شروع ہونے والی افغانستان اور ایران میں ڈالر اسمگلنگ کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن نے مارکیٹ کو کچھ حد تک بہتر کیا ہے، انٹربینک ریٹ 3 کاروباری دنوں میں 1.39 روپے کم ہوا، جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایکسچینج کمپنیوں نے 1.175 روپے کی کمی رپورٹ کی، اس کے باوجود خدشات باقی ہیں۔
بینکرز خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر نیچے رکھا گیا تو اس سے طلب غیر رسمی مارکیٹ کی طرف جا سکتی ہے، جیسا کہ 2 سال قبل ہوا تھا، ایک بینکر نے کہا کہ ’مارکیٹ کے بنیادی اصولوں کے خلاف جانا ایک غیر قانونی متوازی مارکیٹ پیدا کر سکتا ہے، جو زیادہ نقصان دہ ہوگا‘۔
ایک کرنسی ماہر نے پیش گوئی کی کہ ڈالر جلد 280 روپے پر آسکتا ہے، اگرچہ اس کے لیے کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی، انہوں نے نشاندہی کی کہ اسٹیٹ بینک کی جارحانہ ڈالر خریداری سے قلت میں اضافہ ہوا ہے، مالی سال 2025 میں تقریباً 9 ارب ڈالر خریدے گئے، موجودہ مالی سال میں بھی اسٹیٹ بینک کی خریداری جاری ہے۔
مالیاتی شعبہ پاکستان ریمیٹنس انیشیٹو (پی آر آئی) سے متعلق پیش رفت کو بھی بغور دیکھ رہا ہے، یہ اسٹیٹ بینک، وزارت سمندر پار پاکستانی اور وزارت خزانہ کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
حکومت نے مالی سال 2026 کے لیے بینکوں کو 86 ارب روپے کی ترغیبات مختص کی ہیں، لیکن منافع خوری پر تنقید کے بعد حکومت ان ادائیگیوں میں کمی پر غور کر رہی ہے۔ بینکوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس سے ترسیلاتِ زر متاثر ہو سکتی ہیں جو مالی سال 2025 میں ریکارڈ 38.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔













لائیو ٹی وی