بزنس فورم کی شرحِ سود 9 فیصد اور ڈالر ریٹ 260 روپے مقرر کرنے کی تجویز

شائع July 29, 2025
— فائل فوٹو: اے ایف پی
— فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان بزنس فورم (پی بی ایف) نے ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ شرحِ سود کو 9 فیصد اور ڈالر ریٹ کو 260 روپے تک لایا جائے تاکہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے اور عوامی قرض و مہنگائی میں کمی آ سکے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان بزنس فورم نے دعویٰ کیا کہ شرح سود اور شرح تبادلہ کو معاشی بنیادوں کے بغیر مصنوعی طور پر بلند رکھا جا رہا ہے اور وزیرِاعظم شہباز شریف سے اپیل کی کہ وہ ترقی اور استحکام کے لیے ان کی درستی کو یقینی بنائیں۔

پی بی ایف کے چیف آرگنائزر احمد جواد نے کہا کہ امریکی ڈالر کی منصفانہ قدر تقریباً 260 روپے ہے، جب کہ موجودہ مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے شرحِ سود 9 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ ایکسچینج ریٹ اور قرضے کی لاگت معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور قومی معیشت پر غیر ضروری بوجھ ڈال رہے ہیں۔

احمد جواد نے وزیرِاعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ ایکسچینج ریٹ پر مصنوعی کنٹرول کو فوری طور پر ختم کریں۔

انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں صرف 20 روپے کی درستی سے عوامی قرض اور مہنگائی دونوں میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔

احمد جواد نے مزید کہا کہ تاریخی طور پر پاکستان روپے کی قدر میں کمی کے بعد اس کو بحال کرنے میں ناکام رہا ہے، جس سے طویل مدتی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔

انہوں نے مالی سال 2025 میں 2.106 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس (فاضل) کو، مالی سال 2024 میں 2.072 ارب ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں، شرح تبادلہ میں کمی کی بنیاد قرار دیا۔

فورم کا کہنا تھا کہ موجودہ ایکسچینج ریٹ 283 روپے فی ڈالر ناقابلِ برداشت ہے اور حقیقی ریلیف صرف کرنسی کے استحکام سے ممکن ہے۔

پی بی ایف نے موجودہ 11 فیصد سود کی شرح کو بھی غیر معقول قرار دیا، کیونکہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) پر مبنی مہنگائی کم ہوکر 4 فیصد پر آچکی ہے۔

فورم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) پر زور دیا کہ وہ 30 جولائی کو ہونے والے اپنے آئندہ مانیٹری پالیسی اجلاس میں پالیسی ریٹ کو کم از کم 9 فیصد تک لائے۔

فورم نے نشاندہی کی کہ حکومت 50 کھرب روپے کے مقامی قرض پر 11 فیصد سود ادا کر رہی ہے، جو مہنگائی سے 5 سے 6 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں سالانہ مالی بوجھ تقریباً 3 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، یہ فنڈز عوامی فلاح و بہبود اور انفرااسٹرکچر کی ترقی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔

پی بی ایف نے مزید کہا کہ شرحِ سود میں کمی سے پاکستان کی بین الاقوامی مارکیٹس میں برآمدی مسابقت بھی بڑھے گی، ساتھ ہی یہ نشاندہی بھی کی کہ خود آئی ایم ایف بھی شرحِ سود کو مہنگائی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی حمایت کرتا ہے۔

بزنس فورم نے زور دیا کہ پاکستان کو صرف ٹیکسٹائل پر انحصار کرنے کے بجائے نئی صنعتوں اور منڈیوں کی تلاش کے ذریعے اپنی برآمدات کو متنوع بنانا چاہیے۔ اس نے اسٹیٹ بینک سے بلوچستان میں کاروباری اداروں کے لیے کریڈٹ کی رسائی بہتر بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔

احمد جواد نے اختتام پر کہا کہ پیداواری شعبوں کو درپیش مسائل کو مسلسل نظرانداز کرنے کی وجہ سے کاروباری برادری میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی اس ہفتے کے آخر میں ہونے والے اجلاس میں ترقی پسند اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اپنائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025