فیکٹ چیک: وائرل نوٹیفکیشن ایف سی اہلکاروں کے پشتون شہریوں پر فائرنگ سے انکار پر برطرفی کا نہیں
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ ایکس’ پر ایک نوٹیفکیشن وائرل ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ حکم نامہ اُن پشتون ایف سی اہلکاروں کی برطرفی سے متعلق ہے، جنہوں نے خیبر پختونخوا میں حالیہ مظاہروں کے دوران پشتون شہریوں پر فائرنگ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
آئی ویریفائی پاکستان کی ٹیم کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان دعوؤں کے بعد ایک فیکٹ چیک شروع کیا گیا، جس سے پتا چلا کہ یہ نوٹی فکیشن 21 جولائی کو جاری کیا گیا تھا اور اس کا ایف سی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
واضح رہے کہ اتوار کو وادی تیراہ میں فوجی تنصیب کے باہر احتجاج کے دوران**سات** افراد گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئے تھے، یہ احتجاج سیکڑوں قبائلی کررہے تھے جو ایک لڑکی کی لاش لے کر بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز، باغ میدان مرکز لائے تھے، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پیر میلہ کے علاقے دربار میں ایک مارٹر حملے میں جاں بحق ہوئی تھی۔
صورتحال اُس وقت پرتشدد ہو گئی جب نوجوان مظاہرین نے مقامی مشران کی جانب سے پُرامن رہنے کی اپیلوں کو نظرانداز کیا، انہوں نے پہلے ہیڈ کوارٹر کے باہر کھڑی ایک کھدائی کرنے والی مشین کو آگ لگائی اور پھر گیٹ توڑنے کی کوشش کی، تنصیب کی حفاظت پر مامور اہلکاروں نے مجمع کو قابو میں رکھنے کے لیے مبینہ طور پر فائرنگ کی۔
دعویٰ
پیر کو ایک صارف، جو اپنی سابقہ پوسٹس اور کور فوٹو سے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم ) کا حامی معلوم ہوتا ہے، نے ایک نوٹیفکیشن شیئر کیا، پوسٹ کے کیپشن میں لکھا تھا کہ’ ایف سی میں جن پشتونوں نے اپنے بھائی پشتونوں پر فائرنگ کرنے سے انکار کیا، آج انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ کافی حد تک شعور آ گیا ہے۔’
پوسٹ میں واضح نہیں کیا گیا کہ وہ فرنٹیئر کور (ایف سی ) یا فیڈرل کانسٹیبلری (ایف سی ) کی بات کر رہا ہے، کیونکہ دونوں فورسز کا مخفف ایک ہی ہے، اور نہ ہی اس میں واقعے کی تاریخ، مقام یا نوعیت کا ذکر تھا جس میں مبینہ طور پر فائرنگ سے انکار کیا گیا تھا۔
فرنٹیئر کور پاکستان آرمی کے افسروں کی قیادت میں چار نیم فوجی فورسز پر مشتمل ہے، جبکہ فیڈرل کانسٹیبلری کی قیادت پولیس سروس آف پاکستان کے افسران کرتے ہیں۔
فرنٹیئر کور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سرحدی نگرانی اور انسداد بغاوت کی کارروائیوں میں شامل ہوتی ہے، جبکہ فیڈرل کانسٹیبلری اندرون ملک امن و امان قائم رکھنے پر مامور ہوتی ہے۔
یہ پوسٹ 57 ہزار بار دیکھی گئی اور 500 سے زائد بار شیئر کی گئی، دیگر صارفین نے بھی یہی نوٹیفکیشن شیئر کیا جیسا کہ یہاں، یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
فیکٹ چیک
اس وائرل دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے ایک فیکٹ چیک کیا گیا کیونکہ حالیہ پُرتشدد واقعات اور خیبر پختونخوا کی کشیدہ صورتحال کے باعث اس میں عوامی دلچسپی بہت زیادہ تھی۔
یہ نوٹیفکیشن 21 جولائی کا تھا، جو تیراہ میں ہونے والے واقعے سے سات دن پہلے جاری کیا گیا تھا، نوٹیفکیشن میں درج تھا کہ’درج ذیل پولیس اہلکاروں کو سینئر افسر کا قانونی حکم نہ ماننے اور پولیس پوسٹ غنڈہ میلہ پر حاضر نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کیا جاتا ہے اور پولیس لائنز کلایہ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔’
مزید درج تھا کہ ’ ایس پی انویسٹی گیشن اورکزئی کو فوری طور پر انکوائری آفیسر مقرر کیا جاتا ہے۔’

یہ نوٹیفکیشن وفاقی حکومت یا فوج کی طرف سے نہیں بلکہ ضلع اورکزئی کے ڈی پی او کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔
کی ورڈ اور ریورس امیج سرچ کے ذریعے ٹرائبل نیوز نیٹ ورک، جی این این اور 24 نیوز ایچ ڈی کی 23 جولائی کو شائع شدہ متعدد رپورٹس سامنے آئیں، جن کے مطابق یہ نوٹیفکیشن خیبر پختونخوا کے 42 پولیس اہلکاروں کی معطلی سے متعلق تھا جنہوں نے غنڈہ میلہ کے علاقے میں انسداد دہشت گردی آپریشن کے دوران ڈیوٹی پر حاضر ہونے سے انکار کیا تھا۔
22 جولائی کو ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع اورکزئی میں 21 جولائی کو 2 حملوں میں کم از کم آٹھ سیکیورٹی اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوئے، جبکہ تین دہشتگرد بھی مارے گئے۔
اس مدت کے دوران شائع کسی رپورٹ میں یہ ذکر نہیں کہ ایف سی اہلکاروں نے شہریوں پر فائرنگ سے انکار کیا ہو۔
نتیجہ: گمراہ کُن
لہٰذا، فیکٹ چیک سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا دعویٰ غلط ہے کہ پشتون ایف سی اہلکاروں کو شہریوں پر فائرنگ سے انکار کرنے پر برطرف کیا گیا۔
اصل نوٹیفکیشن 21 جولائی کو جاری ہوا تھا اور یہ صرف اورکزئی کے پولیس اہلکاروں کی معطلی سے متعلق تھا، جنہوں نے انسداد دہشت گردی ڈیوٹی سے انکار کیا تھا۔












لائیو ٹی وی