آواران میں چوبیس ستمبر کے زلزلے کے بعد لوگ کھلے آسمان تلے امداد کے متظر ہیں۔ اے ایف پی تصویر
آواران میں چوبیس ستمبر کے زلزلے کے بعد لوگ کھلے آسمان تلے امداد کے متظر ہیں۔ اے ایف پی تصویر

آواران میں 24  ستمبر کے ہولناک زلزلے کے بعد ایک اور طاقتور زلزلے نے پہلے سے  متاثرہ آبادی کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان آفات میں 500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور سینکڑوں زخمی و متاثر ہیں۔ ضلعے میں مکانات اور انفراسٹرکچر تقریباً زمین بوس ہوچکا ہے اور عوام کے بڑی تعداد بے بسی کی تصویر بنی تاحال مدد کی منتظر ہیں کیونکہ امن و امان کی صورتحال اور رسائی میں مشکلات سے بحالی کے کاموں میں خلل ہورہا ہے۔

یونائیٹڈ سٹیٹس جیالوجیکل سروے (یوایس جی ایس) کے مطابق 24 ستمبر کے زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.7  تھی۔ اس کا مرکز ( ایپی سینٹر) آواران سے شمال میں  96 کلومیٹر تھا اور گہرائی 20 کلومیٹر تھی۔  بلوچستان کے اکثر زلزلوں کی طرح اس کی وجہ بھی چمن فالٹ تھی۔ زلزلے کے اثرات پورے پاکستان میں محسوس کئے گئے اور عوام میں خوف کی لہر دوڑاگئے۔

اپریل اور ستمبر 2013 کے مشاخیل اور آواران زلزلے کے بعد بلوچستان اور خصوصاً کوئٹہ کے بارے میں کسی زلزلے کے خدشات پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔

طوفان سے قبل سمندر کی خاموشی

بلوچستان یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر جیالوجی، دین محمد کاکڑ نے خبردار کیا ہے کہ کوئٹہ کی اطراف موجود جیالوجیکل فالٹس (ارضیاتی رخنوں) کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں شدید زلزلہ آسکتا ہے۔

زلزلوں کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ زمین کی ساخت کو سمجھا جائے۔ ہماری زمین کی سطح، ابلے ہوئے انڈے کی مانند جگہ جگہ سے چٹخی ہوئی ہے جنہیں ارضیاتی پلیٹس کہا جاتا ہے۔ ہمارا سیارہ نو بڑی اور 12 چھوٹی  پلیٹس پر مشتمل ہے جو مسلسل حرکت میں ہے۔

فالٹس زمین سطح پر دراڑوں یا پلیٹس کے کناروں ( باؤنڈریز) پر ہوتے ہیں اور ان میں حرکت کی وجہ سے زلزلے آتے ہیں۔

پاکستان میں بلوچستان کے مقام پر تین بڑی پلیٹس سرگرم ہیں جو یوریشین، عریبین اور انڈین پلیٹس کہلاتی ہیں ۔ ان میں سے عریبین پلیٹ یوریشن پلیٹ کے نیچے دھنس رہی ہے اور یہ مقام مکران سبڈکشن زون ( ایم ایس زیڈ) کہلاتا ہے۔

آواران زلزلے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد پانی میں نمودار ہونے والے جزیرے پر موجود ہیں۔ رائٹرز تصویر
آواران زلزلے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد پانی میں نمودار ہونے والے جزیرے پر موجود ہیں۔ رائٹرز تصویر

عام طور پر زلزلے وہاں آتے ہیں جہاں ارضیاتی پلیٹس ملتی ہیں، ان کی حرکت سے باہمی رگڑ پیدا ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ زیرِ زمین دباؤ بڑھتا رہتا ہے جب یہ دباؤ خارج ہوتا ہے تو اسے ہم زلزلہ کہتے ہیں۔ اسی لئے ایک ہی جگہ پر بار بار زلزلے آسکتے ہیں۔ اگر ایک مقام پر دو زلزلوں کے درمیان وقفہ جتنا ذیادہ ہوگا اتنا ہی ذیادہ دباؤ بنے گا اور زلزلے کی شدت بھی اتنی ہی ذیادہ ہوگی۔

 پاکستان میں جنوبی ایشیا کا سب سے طویل اور سب سے سرگرم فالٹ موجود ہے جسے ' چمن فالٹ سسٹم' ( سی ایف ایس) کہتے ہیں۔ اس کی لمبائی تقریباً 900 کلومیٹر ہے اور اسی کی وجہ سے 1935 میں کوئٹہ کا ہولناک زلزلہ آیا تھا۔

اسی فالٹ کی ایک شاخ اورنچ فالٹ کی وجہ سے آواران کا زلزلہ آیا ہے۔

چمن فالٹ اس وقت بھی سرگرم ہے اور 8 سے 10 ملی میٹر سالانہ کے حساب سے حرکت کررہا ہے جو آپ کی چھوٹی انگلی کے ناخن کی چوڑائی کے برابر ہے۔

' چمن نے جنوب میں گزشتہ 115 برس سے کوئی سرگرمی ( زلزلہ) نہیں ہوئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں بہت دباؤ ( اسٹریس) بن رہی ہے،' کاکڑ نے کہا ۔

تلخ حقائق

کوئٹہ کو درپیش زلزلوں کے خطروں کے پیشِ نظر ان کی یونیورسٹی نے پاکستانی یونیورسٹیوں اور بیرونِ ملک اداروں کے تعاون سے بلوچستان بھر میں دو درجن مقامات پر حساس سینسرز نصب کئے ہیں۔

گلوبل پوزیشننگ سسٹم ( جی پی ایس) کی بنیاد پر کام کرنے والے ان سینسرز کو جب ایک عرصے تک فالٹس کے پاس لگایا گیا تو انہوں نے کوئٹہ کے ارد گرد دباؤ بننے کی تصدیق کی اور انکشاف کیا کہ بعض فالٹس جنوب کی سمت 8 سے 10 ملی میٹر سالانہ کے لحاظ سے کھسک رہے ہیں۔

اس کے علاوہ کاکڑ ایک عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ شہر میں نہ صرف زلزلے کی صورتحال سے نمٹنے کا منصوبہ تیار کیا جائے بلکہ زلزلہ برداشت کرنے والی عمارتوں کے کوڈز پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔

' کوئٹہ زلزلوں کے خطرات میں گھرا ہے اور اب تک شہری کیلئے کوئی ایمرجنسی پلان موجود نہیں۔ مئی 1935 کے زلزلے میں آدھا کوئٹہ تباہ ہوگیا تھا ۔ اور کوئی نہیں بتاسکتا کہ اگلا زلزلہ اس شہر پر کیا قیامت ڈھائے گا،' کاکڑ نے کہا۔

مواقع کے جزائر

آواران زلزلے کے چند گھنٹوں بعد ایک چھوٹا جزیرہ گوادر کے قریب نمودار ہوا۔ اس کے دو دن بعد اوماڑہ اور پسنی کے علاقوں میں مزید دو جزیرے پانی کی سطح پر ظاہر ہوئے۔

ماہرین کے مطابق یہ جزیرے درحقیقت مٹی کے آتش فشاں ہیں جن سے میتھین گیس کے بلبلے خارج ہورہے ہیں اور یہ اشارہ ہیں کہ ان علاقوں میں تیل اور گیس موجود ہوسکتی ہے۔

آواران زلزلے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد پانی میں نمودار ہونے والے جزیرے پر موجود ہیں۔ رائٹرز تصویر

دوہزاردس میں ہنگول کے پانی میں ظاہر ہونے والے زلزلے میں گیسوں کا اخراج ہورہا ہے۔ تصویر بشکریہ جیالوجیکل سروے آف پاکستان
دوہزاردس میں ہنگول کے پانی میں ظاہر ہونے والے زلزلے میں گیسوں کا اخراج ہورہا ہے۔ تصویر بشکریہ جیالوجیکل سروے آف پاکستان

مقامی افراد کے مطابق یہ کوئی نیا واقعہ نہیں کیونکہ اس علاقے میں جزائر نمودار ہوتے اور غائب ہوتے رہتے ہیں ۔ ہنگول سے کچھ دور پانیوں میں 16 نومبر 2010 کو ایسا ہی ایک جزیرہ دریافت ہوا تھا جو نرم مٹی پر مشتمل تھا ۔

جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر، انور حسین نے ہنگول کے جزیرے کا تحقیقی دورہ کیا تھا۔

' ہنگول جزیرہ ستمبر میں نمودار ہونے والے جزیروں سے قدرے بڑا تھا جو تھوڑے عرصے کے بعد ہی ڈوب گیا تھا۔ ایسے مٹی کے آتش فشاں پہاڑوں یا مڈ وولکینو اس علاقے میں عام ہیں،' انور حسین نے کہا۔

' میں نے دیکھا کہ ہنگول جزیرے پر کئی مقام سے میتھین گیس خارج ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ سلفر اور تانبے کا سراغ بھی ملا ہے،' انہوں نے کہا۔

اسی طرح کے دنیا میں گرم مٹی اگلنے والے بلند اور سرگرم ترین پہاڑوں میں سے ایک ،' چندرگپتا' یعنی چاند آتش فشاں بھی گوادر کے علاقے میں خشکی پر موجود ہے۔

انور حسین نے کہا مکران کے ساحلوں پر میتھین گیس ذخائر کے وسیع امکانات ہوسکتےہیں۔ انہوں نے اس علاقے میں تفصیلی جیوفزیکل تجزیئے پر زور دیا تاکہ ہائیڈرو کاربنز کے امکانات کا جائزہ لیا جاسکے۔

دوسری جانب کاری میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی ( این آئی او) نے بھی اسی علاقے میں ایک منجمند میتھین گیس کے امکانات ظاہر کئے ہیں۔

زلزلہ بم کی ٹک ٹک اور مکران سونامی

زلزلوں کے درجنوں چھوٹے واقعات کے ساتھ پاکستانی تاریخ میں دو اہم زلزلے نمودار ہوئے ہیں جن میں مئی 1935 کا زلزلہ شامل ہے جس میں 30,000 افراد ہلاک ہوئے اکتوبر 2005 میں پاکستانی کے زیرِ انتطام کشمیر میں 75,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کوئٹہ زلزلہ چمن فالٹ کی وجہ سے آیا تھا جبکہ کشمیر زلزلہ انڈین اور یوریشین پلیٹس کے درمیان سرگرمی کی وجہ سے رونما ہوا تھا۔

تاہم مکران کے پانیوں میں بھی ایک ارضیاتی بم خوابیدہ ہے لیکن اس کی ٹک ٹک جاری ہے یہ مکران سبڈکشن زون ( ایم ایس زیڈ) کہلاتا ہے جو بحیرہ عرب میں واقع ہے۔ عین اسی جگہ تین اہم ٹیکٹونک پلیٹس آکر مل رہی ہیں۔

یہ اٹھائیس نومبر 1945 کی بات ہے جب پسنی اور اورماڑہ کےکچھ علاقوں میں پانی کی اونچی لہریں پیدا ہوئیں جن کی بلندی بارہ سے پندرہ میٹر تک تھی۔ وہ سونامی تھی جو ایم ایس زیڈ میں 8.1 میٹر زلزلے سے بنی تھیں۔

اس سانحے میں مکران کے ساحلوں پر تقریباً چار ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ پانی کی ہولناک لہروں نے ہزاروں مردہ مچھلیوں کو ساحل پر لاکر پٹخ دیا تھا اور کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔

اس واقعے کے بعد علاقے میں ایک جزیرہ نمودار ہوگیا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایم ایس زیڈ میں ہر سو سے ڈیڑھ سوسال کے اندر سونامی پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ اس علاقے میں تین پلیٹیں سرگرم ہیں۔

اسی جگہ 326 قبل مسیح  میں سونامی نوٹ کی گئی تھی جو قدیم ترین ریکارڈ ہے جبکہ 1008 اور 1897 میں بھی اس کے ریکارڈ ملتے ہیں۔

ایرانی ماہرین کی جانب سے شائع ایک رپورٹ کے مطابق ایم ایس زیڈ میں اگلے پچاس سال میں زبردست سونامی کا امکان موجود ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں گوادر اور اس سے ملحق تعمیرات ہورہی ہیں۔

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس علاقے میں سونامی آتی ہے تو اس سے کراچی بھی متاثر ہوسکتا ہے۔

جی ایس پی اسلام آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر، آصف نذیر رانا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مکران کے پورے ساحل پر سونامی کا خطرہ موجود ہے اور اگر 7.5 شدت کا زلزلہ آتا ہے تو اس سے آج کا کراچی شدید متاثر ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ 1945 کے مکران سونامی سے کراچی کے ساحل پر دو میٹر تک اونچی لہریں دیکھی گئی تھیں۔

ساؤتھ ایمپٹن یونیورسٹی ، برطانیہ کی گیما ایل اسمتھ اور ان کے ساتھیوں نے بھی مکران سونامی پر حال ہی میں ایک اہم ریسرچ پیپر شائع کیا ہے۔

اس ٹیم نے سبڈکش زون کا ٹو ڈی تھرمل ماڈل بنایا ہے جس سے ظاہر ہوا ہے کہ کم از کم 350 کلومیٹر کے علاقے میں 8.7 سے 9.2 شدت کا زلزلہ رونما ہوسکتا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ اس کا دورانیہ ایک سو سے دوسو سال کے اندر ہے۔

دوسری جانب پاکستانی ماہرین یہ کہہ چکے ہیں کہ دوہزارتیرہ کے آواران زلزلوں سے مکران پر مزید دباؤ منتقل ہوگا جو مکران میں زلزلوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

پاکستان میں قدرتی آفات بالخصوص زلزلے کے خطرات منڈلارہے ہیں اور اسی لئے ضرورت ہے کہ ملک گیر سطح پر ایکشن پلان مرتب کئے جائیں جن میں کمیونٹی کی سطح پر عوام کو شریک کرکے قیمتی جانوں کو بچایا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں